ماں باپ کی خدمت کا درجہ
راوی:
وعن عبد الله بن عمرو قال : جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فاستأذنه في الجهاد فقال : " أحي والدك ؟ " قال : نعم قال : " ففيهما فجاهد " . متفق عليه . وفي رواية : " فارجع إلى والديك فأحسن صحبتهما "
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم انہیں کے درمیان رہ کر جہاد کرو یعنی پوری محنت وتندہی کے ساتھ ان کی خدمت کو کہ تمہارے حق میں یہی جہاد ہے ۔" (بخاری ومسلم )
اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ تو پھر اپنے ماں باپ کے پاس جاؤ اور ان کی صحبت کو بہتر بناؤ یعنی ان کی خدمت اور ان کے حقوق کی ادائیگی اچھی طرح کرو ۔
تشریح :
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے جو حکم ثابت ہوتا ہے اس کا تعلق نفل جہاد سے ہے کہ جس شخص کے والدین زندہ ہوں اور مسلمان ہوں وہ ان کی اجازت کے بغیر نفل جہاد میں شرکت کے لئے گھر سے نہ جائے ہاں اگر جہاد فرض ہو تو پھر اس صورت میں اس کو والدین کی اجازت کی حاجت نہیں ہے ۔ بلکہ اگر وہ منع بھی کریں اور جہاد میں جانے سے روکیں تو ان کا حکم نہ مانا جائے اور جہاد میں شریک ہو کر اپنا فرض ادا کیا جائے نیز اگر والدین کو اللہ نے اسلام کی ہدایت نہ بخشی ہو اور وہ کافر ہوں تو جہاد میں شریک ہونے کے لئے ان کی اجازت کی کسی حال میں بھی حاجت نہیں ہے خواہ جہاد فرض ہو یا نفل اسی طرح علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر مسلمان ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو ناگوار خاطر ہو تو ان کی اجازت کے بغیر بھی نفل عبادت جیسے حج و عمرہ کے لئے نہ جائے اور نہ نفل روزہ رکھے ۔