عذر کی بناپر جہاد میں جانے والے کا حکم
راوی:
وعن أنس : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم رجع من غزوة تبوك فدنا من المدينة فقال : " إن بالمدينة أقواما ما سرتم مسيرا ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم " . وفي رواية : " إلا شركوكم في الأجر " . قالوا : يا رسول الله وهم بالمدينة ؟ قال : " وهم بالمدينة حبسهم العذر " . رواه البخاري
(2/368)
3816 – [ 30 ] ( صحيح )
ورواه مسلم عن جابر
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا کہ مدینے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس سفر جہاد میں بظاہر تمہارے ساتھ نہیں تھے لیکن تم نے ایسا کوئی راستہ طے نہیں کیا اور کسی ایسی وادی وجنگل کو عبور نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ نہ رہے ہوں یعنی ان کے جسم تو ان کے گھروں میں تھے لیکن ان کی دعائیں ان کے دل اور ان کی ہمتیں تمہارے ساتھ تھیں ۔ اور ایک روایت میں (الا کانوا معکم) یعنی جس میں تمہارے شریک نہ ہوں صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اور وہ مدینہ ہی میں ہیں ؟ یعنی جب کہ وہ ہمارے ساتھ جہاد میں شریک نہیں گئے اور اپنے گھروں میں موجود رہے پھر وہ ہمارے ساتھ کیسے رہے اور ہمارے اجر وثواب میں کیسے شریک ہوئے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ مدینہ میں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اجر وثواب میں تمہارے شریک ہیں کیونکہ ان کے عذر نے ان کو روکا ہے یعنی وہ اپنے عذر کی سبب سے تمہارے ساتھ جہاد میں نہیں جا سکے ہیں ۔ بخاری اور مسلم نے اس روایت کو حضرت جابر سے نقل کیا ہے ۔"
تشریح :
جو لوگ عذر کی بنا پر جہاد میں نہیں جا سکے اور مدینہ میں رہ گئے وہ جہاد کرنے والوں کے ثواب میں شریک تھے نہ یہ کہ مرتبہ ودرجہ کے اعتبار سے وہ مجاہدین کے برابر تھے کیونکہ جن لوگوں نے بنفس نفیس جہاد میں شرکت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال کی قربانی پیش کی وہ افضل ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
ا یت (فضل اللہ المجاہدین باموالہم وانفسہم علی القاعدین درجہ )
مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ نے درجہ میں فضیلت بخشی ہے ۔"