مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 932

مجاہد کے اجر کی تقسیم

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من غازية أو سرية تغزو فتغتنم وتسلم إلا كانوا قد تعجلوا ثلثي أجورهم وما من غازية أو سرية تخفق وتصاب إلا تم أجورهم " . رواه مسلم

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جہاد کرنے والی جس جماعت یا جہاد کرنے والے جس لشکر نے جہاد کیا اور مال غنیمت لے کر صحیح و سالم واپس آگیا اس کو اس کا دو تہائی اجر جلدی یعنی اسی دنیا میں ) مل گیا اور جہاد کرنے والی جس جماعت یا جہاد کرنے والے جس لشکر نے جہاد کیا اور نہ صرف یہ کہ اس کو مال غنیمت نہیں ملا بلکہ اس جماعت و لشکر کے لوگ زخمی کئے گئے یا شہید کر دیئے گئے تو ان کا اجر پورا باقی رہا ۔" (مسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو مجاہد کفار سے جنگ کرنے کے لئے نکلیں گے ان کی تین صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ وہ کفار سے جنگ کے بعد صحیح و سالم لوٹ کر بھی آئیں گے اور جو مال غنیمت ان کے ہاتھ لگے گا اس کے بھی حق دار ہونگے ۔ ایسے ہی مجاہدین کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت ومشقت کا دو تہائی اجر کہ سلامتی کے ساتھ لوٹنا اور مال غنیمت حاصل کرنا ہے اسی دنیا میں حاصل کر لیا ایک تہائی اجر جو باقی رہا ہے یعنی جہاد کا ثواب وہ انہیں قیامت کے دن ملے گا دوسرے یہ کہ جو مجاہد صحیح وسلامت لوٹ کر تو آئے مگر مال غنیمت ان کے ہاتھ نہیں لگا تو انہوں نے گویا اس دنیا میں ایک تہائی اجر پا لیا ہے اور جو تہائی باقی رہا ہے وہ قیامت کے دن پائیں گے ، تیسرے وہ مجاہد ہیں جنہوں نے جہاد کیا اور میدان میں زخمی ہو گئے یا شہید کر دئیے گئے اور ان کے ہاتھ مال غنیمت بھی نہیں لگا تو ان کا اجر باقی ہے جو انہیں پوری طرح قیامت کے دن ملے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں