شہداء کی حیات بعد الموت کے بارے میں آیت کریمہ کی تفسیر
راوی:
وعن مسروق قال : سألنا عبد الله بن مسعود عن هذه الآية : ( ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون )
الآية قال : إنا قد سألنا عن ذلك فقال : " أرواحهم في أجواف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديل فاطلع إليهم ربهم اطلاعة فقال : هل تشتهون شيئا ؟ قالوا : أي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ففعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا قالوا : يا رب نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا " . رواه مسلم
اور حضرت مسروق (تابعی ) کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر پوچھی ۔ (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ) 3۔ آل عمران : 169) جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد میں مارے گئے ہیں ان کو تم مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے ہے الخ ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ (ان شہداء ) کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قلب میں ہیں ان کے (رہنے ) کے لئے عرش الہٰی کے نیچے (بمنزلہ گھونسلوں ) کے قندیلیں لٹکائی گئی ہیں وہ (روحیں ) بہشت میں سے جہاں سے ان کا جی چاہتا ہے میوے کھاتی ہیں پھر ان قندیلوں میں جا کر بسیرا کرتی ہیں تب پروردگار ان (شہدا ) کی طرف جھانکتا ہے فرماتا ہے کہ " کیا تم کو کسی چیز کی خواہش ہے ؟ " وہ عرض کرتے ہیں کہ ہم کس چیز کی خواہش کریں درآنحالیکہ ہم بہشت میں سے جہاں سے ہمارا جی چاہتا ہے میوے کھاتے ہیں ۔" اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تین مرتبہ یہی معاملہ کرتا ہے (یعنی تین بار ان سے یہی سوال کرتا ہے ) اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں پوچھے جانے والے سے چھوڑا نہیں جائے گا (یعنی جب وہ یہ جانتے ہیں کہ پروردگار کی مراد یہ ہے کہ ہم کسی خواہش کا اظہار کریں ) تو وہ عرض کرتے ہیں کہ " اے ہمارے پروردگار !ہماری بس یہی خواہش ہے تو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس کر دے (اور ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے ) تاکہ ہم ایک بار اور تیری راہ میں مارے جائیں )" جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی (متعین ) خواہش وحاجت نہیں ہے (کیونکہ انہوں نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس کو پورا کرنا اللہ کے ارادہ اور مصلحت کے خلاف ہے دوسرے یہ کہ ان کو پہلی ہی بار میں جو عظیم ثواب اور عظیم اجر ملا ہے اور اسی وجہ سے ان کی کوئی حاجت وخواہش نہیں ہے اگر وہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو وہی اجر وانعام انہیں دوبارہ ملے گا اور اس کی انہیں حاجت ہی نہیں ہے کیونکہ شہید کا اجر و ثواب ایک ہی ہے جو انہیں حاصل ہے ) تو ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ ان سے پوچھنا چھوڑ دیتا ہے ۔" (مسلم )
تشریح :
کسی کے ذہین میں اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ ترجمہ میں بین القوسین عبارت کے مطابق اگر دوسری بار میں بھی پہلی ہی بار جیسا ثواب ملے تو پھر ان شہداء کی خواہش کا کیا فائدہ کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں واپس کر کے دنیا میں بھیج دیا جائے تا کہ ہم دوبارہ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ۔
علماء نے اس کا جواب لکھا ہے کہ اس خواہش کے اظہار سے اس کی مراد حقیقت میں اپنی روحوں کو جسموں میں واپس کئے جانے کی درخواست کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصود اللہ تعالیٰ کے ان انعامات واکرامات کا شکر ادا کرنا ہے جس سے ان کو نوازا گیا " گویا اپنی اس خواہش کے ذریعے وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اے اللہ ! تو نے ہمیں اپنی جو نعمتیں عطا کی ہیں اور ہمیں جن عظیم درجات سے نوازا ہے اور ان کی وجہ سے ہم پر جو تیرا شکر ادا کرنا واجب ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا میں واپس جائیں اور تیری راہ میں اپنی جان قربان کر دیں ۔
یا پھر وہ اپنی خواہش کا اظہار اپنے گمان کے مطابق کرتے ہوں کہ ہم چونکہ دوسری مرتبہ میں اور زیادہ مستعدی ہمت اور جان نثاری کے فزوں تر جذبے کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کریں گے اس لئے کیا عجب کہ دوسری مرتبہ میں ہمیں اور زیادہ بہتر اور کامل تر جزا ملے لیکن نظام قدرت اور جاری معمول چونکہ اس کے خلاف ہے اور حق تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہے کہ ان کو دوسری مرتبہ میں وہی اجر ملے گا جو پہلی مرتبہ مل چکا ہے اور اس کی انہیں حاجت نہیں ہے تو ان سے پوچھنا چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
تنبیہ : علماء نے یہ لکھا ہے کہ شہداء کی ارواح کو پرندوں کے قالب میں رکھنا ان ارواح کی عزت وتوقیر اور تکریم کی بنا پر ہے جیسا کہ جواہرات کو ان کی حفاظت واحتیاط کے لئے صندوق میں رکھا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ مقصد ہوتا ہے کہ ان ارواح کو ان کے دنیاوی جسم کے بغیر اس صورت (یعنی پرندوں کے قلب میں جنت میں داخل کیا جائے ، چنانچہ وہ ارواح ان پرندوں کے قالب میں جنت کے مرغزاروں میں سیر کرتی ہیں ، وہاں کی فضاؤں میں گھومتی ہیں جنت کی پاکیزہ ترین خوشبوؤں اور کیف آور ہواؤں سے لطف اندوز ہوتی ہیں ، وہاں کے انوار وبرکات کا مشاہدہ کرتی ہیں ، وہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے بہرہ اندوز ہوتی ہیں اور ان کو صرف ان ہی چیزوں کے ذریعہ ہمہ وقت کی خوش طبعی و آسودہ خاطری حاصل نہیں ہوتی بلکہ حق جل مجدہ کے مقرب ملائکہ کے قرب وجوار کی عظیم ترین سعادت بھی میسر ہوتی ہے جو بجائے خود سب سے بڑی نعمت اور فرحت وانبساط کا سبب ہے چنانچہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی یہی مراد ہے کہ :
(یرزقون فرحین بما اتہم اللہ من فضلہ )۔
وہ رزق دئیے جاتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں ۔"
اس موقع پر یہ بات بطور خاص ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حدیث سے تناسخ (آواگون ) کا نظریہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جو لوگ تناسخ کے قائل ہیں ان کے نزدیک تناسخ اس کو کہتے ہیں کہ " اس عالم میں روح کا کسی قالب وبدن میں لوٹنا " گویا ان کے نزدیک کسی قالب وبدن میں روح کے لوٹنے کا نظریہ آخرت سے متعلق نہیں ہے اور یہ یوں بھی ممکن نہیں ہے کہ ان کے نزدیک آخرت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ بلکہ وہ آخرت کے منکر ہیں ۔
ایک بات اور اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ جنت مخلوق ہے اور موجود ہے ۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلکہ ہے ۔