مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان ۔ حدیث 91

ادھار کو ادھار کے ساتھ بیچنے کی ممانعت

راوی:

وعن ابن عمر : أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى عن بيع الكالئ بالكالئ . رواه الدارقطني

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کو ادھار کے ساتھ بیچنے سے منع فرمایا ہے (رواہ الدارقطنی)

تشریح :
لفظ کالئی ہمزہ کے ساتھ بھی لکھا پڑھا جاتا ہے اور بغیر ہمزہ یعنی کالی بھی استعمال ہوتا ہے دونوں کلاء سے مشتق ہیں جس کے معنی ہیں تاخیر یا ادھار۔
ادھار کو ادھار کے ساتھ بیچنے کی صورت یہ ہے کہ مثلا ایک شخص کسی سے کوئی چیز ایک متعین مدت کے وعدے پر خریدے اور یہ طے ہو جائے کہ خریدار اس چیز کی قیمت جب اگلے ماہ کی فلاں تاریخ کو ادا کرے گا تو بیچنے والا وہ چیز اسے دیدے گا مگر جب وہ متعین تاریخ آ جائے اور اس وقت بھی خریدار قیمت ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو بیچنے والے سے یہ کہے کہ اب اس چیز کو ایک اور مدت کے لئے کچھ زیادہ قیمت پر فروخت کر دو مثلًا اس نے وہ چیز دس روپے میں خریدی تھی اب یہ کہے کہ اسی چیز کو گیارہ روپے میں بیچ دو میں اگلے ماہ کی فلاں تاریخ کو گیارہ روپے ادا کر دوں گا بیچنے والا کہے کہ میں نے بیچ دی اس طرح یہ معاملہ آپس کے قبضہ کے بغیر طے ہو جائے کہ نہ تو بیچنے والا مبیع دے اور نہ خریدار اس کی قیمت ادا کرے بلکہ مبیع بیچنے والے کے پاس رہے اور قیمت خریدار کے پاس اور خرید وفروخت کا معاملہ طے ہو جائے اس طرح کی بیع کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کیونکہ یہ ایک ایسی بیع ہے جس میں قبضہ حاصل نہیں ہوتا۔
بعض حضرات نے اس کی ایک دوسری صورت یہ بیان کی ہے کہ مثلا عمرو کے پاس زید کا ایک کپڑا ہے اور عمرو ہی کے ذمہ بکر کے دس روپے ہیں اب زید بکر سے یہ کہے کہ عمرو کے پاس میرا جو کپڑا ہے اسے میں تمہارے ہاتھ ان دس روپوں کے عوض کہ جو تہمارے عمرو کے ذمہ ہیں بیچتا ہوں میں عمرو سے دس روپے لے لوں گا تم اس سے کپڑا لے لینا اور بکر کہے کہ مجھے یہ منظور ہے یہ بیع بھی ناجائز ہے کیونکہ اس میں بھی قبضہ حاصل نہیں ہوتا۔

یہ حدیث شیئر کریں