شہری کے حق میں یا اس کے خلاف جنگلی کی شہادت قبول ہوگی یا نہیں ؟
راوی:
وعن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا تجوز شهادة بدوي على صاحب قرية " . رواه أبو داود وابن ماجه
اور حضرت ابوہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا " بستی میں رہنے والے کے حق میں یا اس کے خلاف ، جنگل میں رہنے والے کی گواہی درست نہیں ہوگی ۔" (ابوداؤد ، ابن ماجہ )
تشریح :
جنگل میں رہنے والے کی گواہی اس لئے درست نہیں کہ عام طور پر وہ نہ تو شریعت کے احکام کا علم رکھتا ہے اور نہ گواہی دینے کی شرائط و کیفیت کی واقفیت رکھتا ہے اسی طرح اس پر غفلت ونسیان کا غلبہ زیادہ رہتا ہے لہٰذا اگر جنگل میں رہنے والا گواہی کی ذمہ داریوں کا احساس رکھتا ہو اور دینے کی جو شرائط وکیفیات ہیں ان سے واقف ہو نیز عادل اہل شہادت کے زمرے میں آتا ہو تو اس کی گواہی درست ومعتبر ہوگی ۔ حضرت امام مالک نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے چنانچہ ان کے نزدیک کسی شہری کے حق میں یا اس کے خلاف جنگل میں رہنے والے کی گواہی جائز نہیں ہوگی جب کہ اکثر آئمہ کا مسلک یہ ہے کہ جنگل میں رہنے والا اگر عادل ہو اور گواہی کے معیار پر پورا اترتا ہو تو شہری کے حق یا اس کے خلاف اس کی گواہی درست و معتبر ہو گی ۔ ان آئمہ کے نزدیک حدیث کے الفاظ (لا یجوز) گویا (لایحسن) کے معنی میں ہیں اور جنگلی کی گواہی کا جائز نہ ہونا " صفات مذکورہ کے نہ پائے جانے کے ساتھ مقید ہے ۔