کن لوگوں کی گواہی کا اعتبار نہیں ؟
راوی:
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا مجلود حدا ولا ذي غمر على أخيه ولا ظنين في ولاء ولا قرابة ولا القانع مع أهل البيت " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب ويزيد بن زياد الدمشقي الراوي منكر الحديث
(2/360)
3782 – [ 25 ] ( لم تتم دراسته )
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا زان ولا زانية ولا ذي غمر على أخيه " . ورد شهادة القانع لأهل البيت . رواه أبو داود
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ان لوگوں کی گواہی جائز و معتبر نہیں ۔ (١) خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت (٢) جس شخص پر تہمت کی حد جاری کی گئی ہو (٣) دشمن جو اپنے (مسلمان ) بھائی کے خلاف ہو (٤) وہ شخص جو ولاء کے بارے میں متہم ہو (٥) وہ شخص جو قرابت کے بارے میں متہم ہو ۔ (٦) وہ شخص جو کسی ایک گھر پر قانع ہو ۔ " امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے نیز اس حدیث کا ایک راوی یزید ابن زیاد دمشقی منکر الحدیث ہے ۔"
تشریح :
اسلام کی رو سے گواہ کا عادل ہونا اتنا ہی ضروری ہے جس قدر حاکم کا عادل ہونا کیونکہ گواہی ایک ایسا اہم درمیانی وسیلہ ہے جو عدالت کو عدل تک پہنچنے میں فیصلہ کن مدد دیتا ہے ، اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ حدیث میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ چونکہ عدل کے معیار پر پورے نہیں اترتے اس لئے ان کی گواہی کو ناقابل اعتبار قرار دیا گیا ہے خیانت کرنے والا مرد الخ میں " خیانت سے " لوگوں کی امانتوں میں خیانت مراد ہے ، یعنی ان مردوں اور عورتوں کی گواہی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جو لوگوں کی امانتوں میں خیانت کرنے والے مشہور ہوں اور ان کا جرم خیانت بار بار سرزد ہونے کی وجہ سے لوگوں پر عیاں ہو ۔ ورنہ تو ظاہر ہے کہ (خیانت ) ایک ایسا مخفی جرم ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے مگر عام طور سے بندوں پر عیاں نہیں ہوتا ۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہاں " خیانت " سے مراد فسق ہے خواہ وہ گناہ کبیرہ کے ارتکا رب اور گناہ صغیرہ پر اصرار کی صورت میں ہوا یا احکام دین اور فرائض دین کی عدم بجا آوری کی شکل میں ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دین کے احکام کو بھی " امانت " فرمایا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ارشاد ہے ۔
(اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ)۔33۔ الاحزاب : 72)
" تحقیق ہم نے امانت (یعنی اپنے دین کے بار کو ') آسمانوں اور زمین پر پیش کیا الخ
اور دین کے احکام کو بجا نہ لانے کو " خیانت " فرمایا جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ارشاد ہے ۔
(لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا اماناتکم )۔ (الانفال ٨ : ٢٧)
" نہ تو اللہ اور اس کے رسول کی امانت (یعنی دین کے امور ) میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔"
اس صورت میں اول تو حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ جو مرد وعورت احکام شرع اور فرائض دین کی بجا آوری نہ کرتے ہوں یا گناہ کبیرہ کے ارتکاب اور گناہ صغیرہ پر اصرار کرتے ہوں ان کی گواہی معتبر نہیں ہوگی ۔ دوسرے یہ کہ آگے آنے والی حدیث میں" خیانت کے بعد " زنا " کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ تخصیص بعد تعمیم " کے طور پر ہے علماء لکھتے ہیں کہ یہ تاویل (یعنی خیانت سے فسق مراد لینا اولی ہے ورنہ دوسری صورت میں تمام برائیوں اور گناہوں کا ذکر باقی رہ جائے گا ۔ جن کا ارتکاب قبول گواہی سے مانع ہے اور ان سب کو چھوڑ کر صرف خیانت کا ذکر کرنا سمجھ میں نہیں آئے گا ۔
جس شخص پر تہمت کی حد جاری کی گئی ہو " کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے کسی پاکدامن پر زنا کی تہمت لگائی ہو اور اس کی سزا میں اس پر حد قذف جاری کی گئی ہو تو اس شخص کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی اگرچہ وہ اس سے توبہ بھی کر لے ۔
اس بارے میں فقہی مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ حد قذف کے علاوہ اور دوسرے تمام حدود میں یہ رعایت حاصل ہے کہ جس شخص پر حد جاری ہوئی ہو اگر وہ توبہ کرے تو اس کی گواہی قبول ہوگی ، توبہ سے پہلے تو اس کی گواہی ناقابل اعتبار قرار پائے گی جب کہ حدقذف میں یہ سزا ہے کہ جس شخص پر یہ حد جاری ہوئی اگر وہ توبہ بھی کرے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی لیکن دوسرے آئمہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ تمام ہی حدود سے متعلق ہے کہ اگر کسی شخص پر حد جاری ہوگئی تو اس کے توبہ کر لینے کے بعد اس کی گواہی قبول کی جائے گی خواہ وہ حد تہمت کے جرم میں جاری ہوئی ہو یا کسی اور گناہ (جیسے زنا) کی وجہ سے ۔
" دشمن جو اپنے خلاف ہو " کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آپس میں ایک دوسرے سے دشمنی وعداوت رکھتے ہوں ان کی ایک دوسرے کے بارے میں گواہی معتبر نہیں ہوگی خواہ وہ دونوں آپس میں نسبی بھائی ہوں یا اجنبی " یعنی دینی بھائی " ہوں ۔
" وہ شخص جو ولاء کے بارے میں متہم ہو ۔" کا مطلب یہ ہے کہ مثلًا ایک شخص زید ایک دوسرے بکر کا غلام تھا اور بکر نے اس کو آزاد کر دیا تھا اب زید اپنی آزادی کو ایک تیسرے شخص کی طرف منسوب کرتا یعنی یوں کہتا ہے کہ میں عمرو کا آزاد کیا ہوا ہوں ، حالانکہ وہ اپنی بات میں جھوٹا ہے اور وہ اپنے اس جھوٹ میں مشہور ہے کہ لوگ عام طور پر اس کے جھوٹے انساب پر اس کو متہم کرتے ہیں اور اس کی تکذیب کرتے ہیں ایسے شخص کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے اس کہنے کی وجہ سے " فاسق " ہے چنانچہ آزاد کرنے والے کی ولاء (یعنی آزاد کرنے پر حاصل ہونے والے حق کو قطع کرنا اور اس کی ولاء کی نسبت کسی ایسے شخص کی طرف کرنا جس نے حقیقت میں اس کو آزاد نہیں کیا ہے گناہ کبیرہ ہے اور اس کے مرتکب کے بارے میں سخت وعید وتنبیہ وارد ہے ۔ یہ حکم قرابت کے بارے میں بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی قرابت میں غلط بیانی کرے یعنی یوں کہے کہ میں فلاں شخص مثلاً زید کا بیٹا ہوں لیکن اس کی غلط بیانی پر لوگ اس کو متہم کرتے ہوں اور اس کی تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ زید کا بیٹا نہیں ہے بلکہ حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے تو اس کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ اس کا یہ جھوٹ بھی " فسق " ہے اور اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے والے کے بارے میں لعنت وارد ہوئی ہے ۔
وہ شخص جو کسی ایک گھر پر قانع ہو ۔" ایسا شخص وہ سائل ہے جو کم سے کم پیٹ بھرنے پر قناعت کر لیتا ہو یا جس کی روزی کسی ایک گھر سے متعلق ہو اور یا جو کسی ایک گھر کا ہو رہا ہو ۔ لیکن یہاں وہ شخص مراد ہے جو کسی کے زیر نفقہ ہو یعنی جس کا گزر کسی کے دینے پر ہوتا ہو جیسے خادم وتابع ۔ ایسے شخص کی گواہی اس کے مخدوم ومتبوع کے حق میں قبول نہیں ہوگی کیونکہ اول تو یہ احتمال ہے کہ وہ اپنی محتاجی کی وجہ سے اپنے مخدوم متبوع کی ناروا طرف داری کرے اور سچی بات نہ کہے اور دوسرے یہ کہ اپنے مخدوم ومتبوع کے حق میں گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ گویا وہ اپنی گواہی کے ذریعہ اس چیز کے منافع کو اپنی ذات سے متعلق کرتا ہے جو اس کی گواہی کے نتیجہ میں اس کے مخدوم ومتبوع کو حاصل ہوگی یا بایں طور کہ جب اس کا کھانا پینا اس کے مخدوم ومتبوع کے ذمہ ہے جس کے حق میں وہ گواہی دے رہا ہے تو اس مخدوم ومتبوع کو اس کی گواہی کا وہی حکم ہوگا جو باپ اور بیٹے یا شوہر اور بیوی کی گواہی کا حکم ہے کہ جس طرح اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کے حق میں یا بیٹا اپنے باپ کے حق میں گواہی دے یا شوہر اپنی بیوی کے حق میں یا بیوی شوہر کے حق میں گواہی دے تو اس کی گواہی درست نہیں ہوگی اور اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے حق میں گواہی دینا گویا اپنی ذات کے فائدے کے لئے گواہی دینا ہے اسی طرح مخدوم ومتبوع کے حق میں تابع وخادم کی گواہی بھی درست نہیں ہے اور اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ! البتہ یہ واضح رہے کہ بھائی کے حق میں بھائی کی گواہی درست رہے گی اور اس کا اعتبار کیا جائے گا ۔
" نیز اس حدیث کا ایک راوی یزید ابن زیاد دمشقی منکر الحدیث ہے " میں " منکر الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حدیث منکر ہے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ جس راوی سے کوئی فحش غلطی صادر ہوئی ہو یا اس پر غفلت ونسیان کا غلبہ ہو اور یا اس کا فسق ظاہر ہو تو اس صورت میں اس کی روایت کردہ حدیث " منکر" کہلائے گی ۔"
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور ان کے والد اپنے دادا سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ تو خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت کی گواہی درست ہے اور نہ زنا کرنے والے مرد اور زنا کرنے والی عورت کی گواہی درست ہے اسی طرح دشمن کی گواہی (اپنے ) دشمن کے خلاف مقبول نہیں ۔" نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مقدمہ میں) اس شخص کی گواہی کو رد کر دیا جو ایک گھر کی کفالت و پرورش میں تھا اور اس نے وہ گواہی اس کے گھر والوں کے حق میں دی تھی ۔" (ابو داؤد )
تشریح :
اس حدیث کی وضاحت اس سے قبل کی حدیث کے ضمن میں کی جا چکی ہے ۔