دو مدعیوں کے درمیان متنازعہ مال کی تقسیم
راوی:
وعن أبي موسى الأشعري : أن رجلين ادعيا بعيرا على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم فبعث كل واحد منهما شاهدين فقسمه النبي صلى الله عليه و سلم بينهما نصفين . رواه أبو داود وفي رواية له وللنسائي وابن ماجه : أن رجلين ادعيا بعيرا ليست لواحد منهما بينة فجعله النبي صلى الله عليه و سلم بينهما
(2/359)
3773 – [ 16 ] ( لم تتم دراسته )
وعن أبي هريرة أن رجلين اختصما في دابة وليس لهما بينة فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " استهما على اليمين " . رواه أبو داود وابن ماجه
اور حضرت ابوموسی اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے بارے میں دعوی کیا (یعنی ہر ایک نے کہا یہ اونٹ میرا ہے ) اور پھر ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے (اپنے دعوی کے ثبوت میں ) دو دو گواہ پیش کئے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان دونوں کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کر دیا ۔" (ابو داؤد ) اور ابوداؤد کی ایک اور روایت نیز نسائی وابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے کہ دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے بارے میں دعوی کیا لیکن ان دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے ۔
چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کو دونوں کا مشترکہ حق قرار دیا ۔" (ابو داؤد)
تشریح :
اس اونٹ کو ان دونوں میں آدھوں آدھ تقسیم کر دیا ۔" کے بارے میں خطابی کہتے ہیں کہ شاید وہ اونٹ دونوں کے قبضے میں ہوگا ۔ اور ملا علی قاری کہتے ہیں کہ ۔ یا وہ اونٹ کسی ایسے تیسرے آدمی کے قبضہ میں ہوگا جو اس اونٹ کے بارے میں ان دونوں سے کوئی تنازعہ رکھتا تھا ۔ پہلی روایت میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ دونوں مدعی اپنے اپنے گواہ رکھتے تھے جب کہ دوسری روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کے پاس بھی گواہ نہیں تھے ؟ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ دونوں روایتوں میں مذکورہ قضیے الگ الگ ہوں ، اور یہ بھی کوئی بعید نہیں ہے ۔ ہر ایک اپنے اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ رکھتا ہوں اور دوسری روایت میں حقیقت حکم کا بیان ہے کہ جب دونوں نے گواہ پیش کئے تو دونوں کی گواہیاں باہم متعارض ہونے کی بنا پر ساقط قرار پائیں لہٰذا وہ دونوں ہی ایسے دو مدعیوں کی مانند ہوئے جو گواہ نہ رکھتے ہوں ۔"
اس اعبتار سے " ان دونوں میں کسی کے پاس گواہ نہیں تھے ۔" کے معنی یہ ہونگے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی اس طرح کے گواہ نہیں تھے جن کو دوسرے کے گواہوں پر ترجیح دی جا سکتی ہو۔
" اس اونٹ کو ان دونوں کا مشترکہ حق قرار دیا " کے بارے میں ابن ملک کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر دو آدمی کسی ایک چیز کی ملکیت کا دعوی کریں اور ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہ ہوں یا ان میں سے ہر ایک کے پاس گواہ ہوں اور وہ چیز دونوں کے قبضے میں ہو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے بھی قبضے میں نہ ہوں تو اس چیز کو ان دونوں کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کیا جائے ۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں کا ایک جانور کے بارے میں تنازعہ ہوا (کہ ان دونوں میں سے ہر ایک اس جانور کو اپنی ملکیت کہتا تھا ) اور ان دونوں کے پاس گواہ نہیں تھے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " قسم کھانے پر قرعہ ڈال لو (جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم کھا کر کہے کہ یہ جانور میرا ہے اسی کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا ۔" (ابو داؤد ، ابن ماجہ )
تشریح :
اس روایت میں جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ اس روایت کے حکم کی مانند ہے جو پہلی فصل کے آخر میں ذکر کی گئی ہے اور جس کو حضرت ابوہریرہ ہی نے نقل کیا ہے ۔