قسم کے لئے قرعہ ڈالنے کا ذکر
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم عرض على قوم اليمين فأسرعوا فأمر أن يسهم بينهم في اليمين أيهم يحلف . رواه البخاري
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں پر قسم کو پیش کیا ( یعنی ان سے کہا کہ قسم کھاؤ کہ مدعی صحیح نہیں ہے ) چنانچہ ان دونوں نے قسم کھانے میں ) جلدی دکھائی تو آپ نے فرمایا کہ " قسم کھانے کے لئے ان لوگوں کے درمیان قرعہ ڈالا جائے کہ ان میں سے کون شخص قسم کھائے ۔" (بخاری)
تشریح :
عبارت کے ظاہری مفہوم سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک شخص نے دربار رسالت میں کچھ لوگوں کے خلاف دعوی دائر کیا ، ان لوگوں (مدعا علیہم ) نے مدعی کو صحیح ماننے سے انکار کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو قسم کھانے کا حکم دیا ان لوگوں نے قسم کھانے میں جلدی دکھائی ، یعنی ہر شخص قسم کھانے کے لئے مستعد نظر آنے لگا ۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں سے قسم نہیں کھلوائی بلکہ یہ حکم دیا کہ تم اپنے درمیان قرعہ ڈالو، قرعہ میں جس کا نام نکلے وہی قسم کھائے ۔
لیکن شارحین نے اس مسئلہ کی یہ صورت لکھی ہے کہ مثلاً دو مختلف دو مختلف آدمیوں نے کسی ایسی چیز کا دعوی کیا جو تیسرے شخص کے پاس ہے ۔ ان دونوں (مدعیوں ) میں سے ہر شخص یہ کہتا ہے کہ وہ چیز میری ہے لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی گواہ نہیں رکھتا ، یا یہ کہ دونوں ہی کے پاس گواہ ہیں لیکن وہ شخص یہ کہتے ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ چیز ان دونوں میں سے کس کی ہے ، لہٰذا اس صورت میں ان دونوں مدعیوں کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ان کے درمیان قرعہ ڈالا جائے اور ان میں سے جس کے نام قرعہ نکلے اس سے قسم کھانے کے لئے کہا جائے جب وہ قسم کھائے تو وہ چیز اس شخص کے حوالے کرنے کا حکم دیا جائے ۔ رہی یہ بات کہ اس صورت میں قسم کھانے کی ذمہ داری مدعی پر عائد ہوتی ہے ۔ جب کہ قسم مدعا علیہ کو کھانی چاہئے تو بظاہر اس (مدعی ) سے قسم کھلوانا اس اعتبار سے ہے کہ ان دونوں مدعیوں میں سے ہر ایک دوسرے کے حق کا منکر ہوتا ہے اور ضابطہ یہی ہے کہ حدیث (والیمین علی من انکر) یعنی قسم اس شخص کو کھانی چاہئے جو منکر ہو۔"
بہرحال مذکورہ بالا دونوں صورتوں حدیث کے ظاہری مفہوم کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں لیکن جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق تو حضرت علی اس کے قائل تھے جو مذکورہ صورت میں بیان ہوا لیکن حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ایسے قضیہ میں حاکم عدالت کو چاہئے کہ وہ چیز اسی تیسرے شخص کے پاس چھوڑ دے اور دونوں مدعیوں کے درمیان آدھوں آدھ تقسیم کر دیا جائے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں امام اور امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول حضرت علی کے قول کے مطابق ہے اور دوسرا قول حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق ہے ۔ آگے حضرت ام سلمہ کو جو روایت آ رہی ہے وہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین کی موئید ہے ۔"