کیا مدعی ایک گواہ اور ایک قسم کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرسکتا ہے ۔
راوی:
وعن ابن عباس : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قضى بيمين وشاهد . رواه مسلم
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے (ایک قضیہ میں ) ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ صادر فرمایا ۔" (مسلم )
تشریح :
حدیث کا ظاہری مفہوم یہ بتاتا ہے کہ اگر مدعی اپنے دعوی کے ثبوت میں صرف ایک گواہ پیش کر سکے تو اس (مدعی ) سے دوسرے گواہ کے بدلے ایک قسم لے لی جائے اور اس قسم کو ایک گواہ کا قائم مقام قرار دے کر اس کا دعوی تسلیم کر لیا جائے چنانچہ حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد تینوں کا یہی مسلک ہے ۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے بلک دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے ، اور چونکہ قرآن کے حکم کو خبر واحد کے ذریعہ منسوخ کرنا جائز نہیں ہے اس لئے اس روایت کی بناء پر ایسے مسلک کی بنیاد صحیح نہیں ہو سکتی جو قرآن کے حکم کے منافی ہو درآنحالیکہ اس رویت کے بارے میں یہ احتمال بھی ہے جب مدعی اپنا دعوی لے کر آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم کی خدمت میں آیا ہو اور وہ اپنے دعوی کے ثبوت میں صرف ایک گواہ پیش کر سکا ہو تو چونکہ وہ اپنے ثبوت شہادت کی تکمیل نہ کر سکا اور آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم نے صرف ایک گواہ کے وجود کے وجود کا اعتبار نہیں کیا اس لئے مدعا علیہ کو قسم کھانے کا حکم دیا مدعاعلیہ کے قسم کھانے کے بعد آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے اس قضیہ کا فیصلہ دیا ۔ اسی کو راوی نے " ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ دینے سے تعبیر کیا ۔
طیبی کہتے ہیں کہ آئمہ کا یہ اختلاف بھی اس صورت میں ہے جب کہ قضیہ کا تعلق کسی مالی دعوی سے ہو اگر دعوی کا تعلق مال کے علاوہ کسی اور معاملہ سے ہو تو اس صورت میں متفقہ طور پر تمام آئمہ کا مسلک یہی ہے کہ گواہ اور قسم (یعنی مدعی ) کی طرف سے مثلًا ایک گواہ پیش کرنے اور ایک قسم کھانے کا اعتبار نہ کیا جائے ۔