مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قضیوں اور شہادتوں کا بیان ۔ حدیث 886

مدعی کو ایک ہدایت

راوی:

وعن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق أخيه فلا يأخذنه فإنما أقطع له قطعة من النار "

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا " اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایک انسان ہوں اور تم اپنے قضیے (جھگڑے ) لے کر میرے پاس آتے ہو ، ممکن ہے تم میں سے کوئی شخص اپنے دلائل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ فصیح وبلیغ بیان کا حامل ہو اور میں اس کا (مدلل ) بیان سن کر اسی کے مطابق فیصلہ کر دوں لہٰذا وہ شخص کہ میں جس کے حق میں کسی ایسی چیز کا فیصلہ کروں جو حقیقت میں اس کے بھائی مسلمان کی ہو ، اس چیز کو نہ لے کیونکہ (ایسی صورت میں گویا ) میں اس کے حق میں آگ کے ایک ٹکڑے کا فیصلہ کروں گا ۔" (بخاری، ومسلم )

تشریح :
میں ایک انسان ہوں " کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ سہو اور نسیان کسی انسان سے بعید نہیں ہے اور انسان کی فطرت اور وضع بشری کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کسی معاملہ کے صرف اسی پہلو کو دیکھے جو ظاہری طور پر عیاں ہو اور اس کے متعلق اسی بات کو قبول کرے جو ایک کھلی ہوئی دلیل کی صورت میں اس کے سامنے آئے اور چونکہ میں بھی ایک انسان اور اس حیثیت سے وہ تمام احکام وعوارض مجھ پر بھی پیش آتے ہیں جو بشریت کا خاصہ ہیں اور جن کا تعلق انسانی جبلت سے ہے ، لہٰذا جن معاملات میں مجھے وحی کے ذریعہ براہ راست بار گاہ الوہیت سے حقیت رسی کی قوت عطا کی جاتی ہے اور حق سبحانہ تعالیٰ کی جانب سے مجھے تعلیم وہدایت دی جاتی ہے ان کے علاوہ دوسرے امور میں مجھے انہی ضابطوں اور قاعدوں کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے جن کی بنیاد انسانی عقل اور بشری تقاضوں پر ہے ۔ چنانچہ جب میرے سامنے کوئی قضیہ آتا ہے تو میں اس کے ظاہری پہلوؤں کے مطابق ہی فیصلہ کرتا ہوں ۔ اگر مدعی اپنے دلائل اپنے گواہ اور اپنے زور بیان سے میرے سامنے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اس کا دعوی صحیح ہے اور اس نے جس چیز کا مطالبہ کیا ہے وہ اسی کا حق ہے تو میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں کہ ظاہری حکم کا تقاضہ یہی ہے اب اس کے بعد مدعی جانے کہ اگر حقیقت میں اس کا دعوی صحیح ہے اور جس چیز کا اس نے مطالبہ کیا ہے وہ اسی کا حق ہے تو وہ اپنی مراد پا لے ۔ لیکن اگر حقیقت میں اس کا دعوی صحیح نہ تھا اور جس چیز کا اس نے مطالبہ کیا تھا وہ اس کا حق نہیں تھا بلکہ کسی دوسرے کا حق تھا اور میں نے اس کے ظاہری دلائل وثبوت اور اس کی چرب زبانی اور قوت لسانی سے یہ سمجھا کہ اس کا دعوی صحیح ہے ۔ اور اس کا مدعا اس کو دلوا دیا تو اس کو چاہئے کہ وہ اس چیز کو اپنے حق میں حلال نہ جانے بلکہ یہ سمجھ کر کہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو ملا ہے ۔ اس سے اجتناب کرے ۔

یہ حدیث شیئر کریں