مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قضیوں اور شہادتوں کا بیان ۔ حدیث 885

عدالت میں جھوٹی قسم کھانے والے کے بارے میں وعید

راوی:

وعن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من حلف على يمين صبر وهو فيها فاجر يقتطع بها مال امرئ مسلم لقي الله يوم القيامة وهو عليه غضبان " فأنزل الله تصديق ذلك : ( إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا )
إلى آخر الآية
(2/356)

3760 – [ 3 ] ( صحيح )
وعن أبي أمامة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه فقد أوجب الله له النار وحرم الله عليه الجنة " فقال له رجل : وإن كان شيئا يسير يا رسول الله ؟ قال : " وإن كان قضيبا من أراك " . رواه مسلم

اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص کسی چیز پر مقید ہو کر (یعنی حاکم کی مجلس میں ) قسم کھائے اور وہ اپنی قسم میں جھوٹا ہو کہ اس کا مقصد قسم کھا کر کسی مسلمان شخص کا مال حاصل کرنا ہو تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا ۔" چنانچہ اس ارشاد کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَ مَنًا قَلِيْلًا اُولٰ ى ِكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) 3۔ آل عمران : 77) ۔" (بخاری )

تشریح :
پوری آیت اور اس کا ترجمہ یہ ہے ۔
(اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَ مَنًا قَلِيْلًا اُولٰ ى ِكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ )۔ 3۔ آل عمران : 77)
" یقینا جو لوگ معاوضہ حقیر لے لیتے ہیں بمقابلہ اس عہد کے جو اللہ تعالیٰ سے (انہوں نے ) کیا ہے اور (بمقابلہ اپنی قسموں کے، ان لوگوں کو کچھ حصہ آخرت میں (وہاں کی نعمت کا ) نہیں ملے گا اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ نہ ان سے (لطف کا ) کلام فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف (نظر محبت سے دیکھیں گے ۔ اور نہ (ان کے گناہوں کو معاف کر کے ) ان کو پاک کریں گے ۔ اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا ۔"
حدیث کی عبارت من حلف علی یمین " صبر" کے لغوی معنی ہیں " حبس ، روکنا ، لزوم " اور " یمین صبر " سے مراد یہ ہے کہ حاکم عدالت میں کسی شخص پر قسم کھانا لازم ہے گویا علی یمین صبر میں " علی " حرف با کے معنی میں ہے اور اس سے مراد محلوف علیہ ہے ! بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ " یمین صبر " یہ ہے کہ کسی چیز پر قسم کھانے والا اس مقصد سے دیدہ ودانستہ غلط بیانی کرتا ہے کہ ایک مسلمان کا مال تلف کر دے یا اس کو ہڑپ کر لے ، چنانچہ (وہو فیہا فاجر) اور وہ اپنی قسم میں جھوٹا ہو ، کے الفاظ سے اس مفہوم کو ترجیح حاصل ہوتی ہے ۔

اور حضرت امامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی (جھوٹی ) قسم کے ذریعہ کسی مسلمان شخص کا حق غصب کیا بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے آگ کو واجب کیا اور اس پر بہشت کو حرام کر دیا ۔" ایک شخص نے (یہ سن کر ) آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم سے عرض کیا اگرچہ وہ حق کوئی معمولی ہی چیز ہو ۔" آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا (ہاں ) اگرچہ پیلو کے درخت کا ایک ٹکڑا (یعنی مسواک ) ہی کیوں نہ ہو ۔" (مسلم )

تشریح :
اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے آگ کو واجب کیا " اس جملہ کی دو تاویلیں ہیں ایک تو یہ کہ یہ حکم اس شخص پر محمول ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کا حق غصب کرنا حلال جانے اور اسی عقیدہ پر اس کی موت ہو جائے دوسری تاویل یہ ہے کہ ایسا شخص اگرچہ دوزخ کی آگ کا یقینا سزاوار ہوگا لیکن یہ بھی غیربعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کو معاف کر دے ! اسی طرح " بہشت کو اس پر حرام کر دیا ۔" کی تاویل یہ ہے کہ ایسا شخص اول وہلہ میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے محروم قرار دیا جائے گا ۔ واضح رہے کہ جس طرح جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کے حق کو ہڑپ کرنے والے کے بارے میں مذکورہ وعید ہے اسی طرح وہ شخص بھی اس وعید میں شامل ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی ذمی کا حق مارے ۔

یہ حدیث شیئر کریں