قیاس واجتہاد برحق ہے
راوی:
وعن معاذ بن جبل : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما بعثه إلى اليمين قال : " كيف تقضي إذا عرض لك قضاء ؟ " قال : أقضي بكتاب الله قال : " فإن لم تجد في كتاب الله ؟ " قال : فبسنة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " فإن لم تجد في سنة رسول الله ؟ " قال : أجتهد رأيي ولا آلو قال : فضرب رسول الله صلى الله عليه و سلم على صدره وقال : " الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضى به رسول الله " . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي
اور حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان (معاذ ) کو (قاضی وحاکم بنا کر ) یمن بھیجا تو ان سے (بطور امتحان ) پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی قضیہ پیش ہوگا تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ " میں کتاب اللہ (قرآن کریم ) کے موافق فیصلہ کرونگا ۔" 'فرمایا " اگر تمہیں وہ مسئلہ (صراحتًہ ) کتاب اللہ میں نہ ملا ؟ " انہوں نے کہا " پھر میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے موافق فیصلہ کروں گا " فرمایا " اگر تمہیں وہ مسئلہ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں بھی نہ ملا ؟" انہوں نے کہا تو پھر میں اپنی عقل سے اجتہاد کرونگا اور (اپنے اجتہاد وحقیقت رسی میں ) کوتاہی نہیں کروں گا ۔" (یا وہ روای جنہوں نے یہ حدیث معاذ سے روایت کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) اپنا دست مبارک معاذ کے سینے پر مارا (تاکہ اس کی برکت سے وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہیں اور ان کے علم میں اضافہ ہو ، اور فرمایا ) تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول (یعنی معاذ ) کو اس چیز کی توفیق عطا کی جس سے (اللہ ) اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد ، دارمی )
تشریح :
میں اپنی عقل سے اجتہاد کرونگا " کا مطلب یہ ہے کہ میں اس قضیہ کا حکم ان مسائل پر قیاس کے ذریعہ حاصل کروں گا جو نصوص یعنی کتاب وسنت میں مذکور ہیں بایں طور کہ کتاب وسنت میں اس قضیہ کے مشابہ جو مسائل مذکور ہیں ان کے مطابق اس قضیہ کا حکم وفیصلہ کروں گا ۔ مظہر نے بھی اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے ۔ کہ پہلے میں غور وفکر کروں گا کہ میرے سامنے جو قضیہ پیش ہوا ہے کہ جس کا کوئی حکم کتاب وسنت میں مذکور نہیں ہے وہ کون سے ایسے مسئلہ سے مشابہ ہے جو کتاب وسنت میں مذکور ہے جب میں ان دونوں کے درمیان مشابہت پاؤں گا تو اس کا وہی حکم وفیصلہ کروں گا جو کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ میں مذکور مسئلہ کا ہے ، چنانچہ آئمہ مجتہدین کے یہاں اس قیاس پر بہت سے مسائل کا استنباط کیا گیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ان آئمہ مجتہدین نے قیاس کی علت وبنیاد میں اختلاف کی ہے مثلًا گیہوں کے ربوا (سود ) کے حرام ہونے کے بارے میں نفس (یعنی صریح حکم ') جب کہ تربوز کے بارے میں ایسی نص نہیں ہے ۔ لہٰذا حضرت امام شافعی نے تربوز کو گیہوں پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ربوا کو بھی حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے علت اس کا کھائی جانے والی چیز ہے " اس لئے گیہوں کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے اس کا ربوا بھی حرام ہوگا ۔ جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے کی علت چونکہ اس کا مکیل (یا موزون ) ہونا ہے اس لئے انہوں نے گیہوں پر چونے کو قیاس کیا اور یہ مسئلہ اخذ کیا کہ چونے کا ربوا بھی حرام ہے ۔
بہرحال یہ حدیث قیاس واجتہاد کے مشروع ہونے کی علت کی بہت مضبوط دلیل ہے اور اصحاب ظواہر (غیر مقلدین ) کے مسلک کے خلاف ہے جو قیاس واجتہاد کے منکر ہیں ۔