بادشاہ روئے زمین پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے
راوی:
وعن ابن عمر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إن السلطان ظل الله في الأرض يأوي إليه كل مظلوم من عباده فإذا عدل كان له الأجر وعلى الرعية الشكر وإذا جار كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر "
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم " 'بادشاہ روئے زمین پر اللہ کا سایہ ہے جس کے نیچے اللہ کے بندوں میں سے مظلوم بندہ پناہ حاصل کرتا ہے لہٰذا جب بادشاہ عدل وانصاف کرتا ہے تو اس کو ثواب ملتا ہے اور رعایا پر اس کا شکر واجب ہوتا ہے اور جب وہ ظلم وطغیانی کرتا ہے تو وہ گنہ گار ہوتا ہے اور رعایا پر صبر لازم ہوتا ہے ۔"
بادشاہ کے وجود کو " خود کا سایہ " اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے جس طرح کسی چیز کا سایہ سورج کی تپش وگرمی کی ایذاء سے بچاتا ہے اسی طرح بادشاہ اپنی رعیت کے لوگوں کو مختلف قسم کی ایذاؤں اور سختیوں سے بچاتا ہے ! نیز بسااوقات " لفظ سایہ " سے کنایۃ " محافظت وحمایت " کا مفہوم بھی مراد لیا جاتا ہے ۔ اس اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو بادشاہ کے وجود کا بجا طور پر اپنی رعایا کے لئے " محافظت وحمایت " کا سب سے بڑا ذریعہ ہونا بالکل ظاہر ہے ۔
طیبی نے یہ وضاحت کی ہے کہ لفظ " ظل اللہ " ایک تشبیہ ہے اور عبادت (یاوی الیہ کل مظلوم ) الخ اس تشبیہ کی وضاحت اور مراد بیان کرتی ہے یعنی لوگ جس طرح سایہ کی ٹھنڈک میں سورج کی گرمی سے راحت پاتے ہیں اسی طرح بادشاہ کے عدل کی ٹھنڈک میں ظلم وجور کی گرمی سے راحت پاتے ہیں ۔
" ظل اللہ " میں اللہ کی طرف (سایہ ) کی نسبت اس (سایہ ) کی عظمت وبرتری کے اظہار کے لئے ہے جیسا کہ بیت اللہ میں اللہ کی طرف بیت کی نسبت اس (بیت ) کی عظمت وبرتری کو ظاہر کرنے کے لئے ہے ، اور اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ سایہ (یعنی بادشاہ ) دوسرے سایوں کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے تعلق سے اپنی الگ شان اور خصوصیت وبرتری رکھتا ہے کیونکہ اس کو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب ) قرار دیا گیا ہے کہ اس کا فریضہ اللہ تعالیٰ کے عدل واحسان کو اس کے بندوں پر پھیلانا ہے ۔