مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 844

بلاوجہ نہ تو امین بنو اور نہ حاکم بنو

راوی:

وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ستة أيام اعقل يا أبا ذر ما يقال لك بعد " فلما كان اليوم السابع قال : " أوصيك بتقوى الله في سر أمرك وعلانيته وإذا أسأت فأحسن ولا تسألن أحدا شيئا وإن سقط سوطك ولا تقبض أمانة ولا تقض بين اثنين "

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھ دن تک مجھ سے یہ فرماتے رہے کہ " ابوذر! بعد میں جو بات تم سے کہی جانے والی ہے اس کے لئے تیار رہو (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چھ دن تک مجھے آگاہ کرتے رہے کہ میں تمہیں ایک ہدایت دوں گا تم اس پر خوب غور کرنا اس کو یاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا ) چنانچہ جب سا تو اں دن ہوا تو آپ نے فرمایا " میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ظاہر وباطن میں اللہ سے ڈرتے رہنا ، جب تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو ساتھ ہی نیکی بھی کرنا کیونکہ وہ برائی کو مٹا دیتی ہے یا یہ مقصد ہے کہ اگر تم کسی کے ساتھ کوئی برا سلوک کربیٹھو تو اس کے ساتھ (نیکی کا ) سلوک بھی کرو) کسی (مخلوق ) کے آگے دست سوال دراز نہ کرنا اگرچہ تمہارا کوڑا ہی کیوں نہ گر پڑا ہو (یعنی اگر کوڑا گرے تو اس کو اٹھانے کے لئے بھی کسی سے نہ کہو ) کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھنا اور دو آدمیوں کے حکم نہ بننا ۔" ۔

تشریح :
کسی کے امانت اپنے پاس نہ رکھنا " کا مطلب یہ ہے کہ بلاضرورت کسی کی امانت اپنے پاس رکھنا احتیاط اور دور اندیشی کے خلاف ہے کیونکہ نفس کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وسوسہ اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہو جائے اور امانت میں خیانت کا ارتکاب ہوجائے یا اگر خیانت کا ارتکاب نہ بھی ہو تو یہ چیز تہمت کا محل تو ہے ہی کہ کسی وجہ سے خود امانت کا مالک یا کوئی دوسرا شخص تم پر خیانت کی تہمت لگا دے ۔

یہ حدیث شیئر کریں