امام عادل کی فضیلت
راوی:
عن عائشة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " أتدرون من السابقون إلى ظل الله عز و جل يوم القيامة ؟ " قالوا : الله ورسوله أعلم قال : " الذين إذا أعطوا الحق قبلوه وإذا سئلوه بذلوه وحكموا للناس كحكمهم لأنفسهم "
حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے ) فرمایا " جانتے ہو قیامت کے دن سب سے پہلے کون لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش یا اس کے فضل و کرم کے سایہ میں جائیں گے ؟" ) صحابہ نے عرض کیا " اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جاننے والے ہیں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سبقت لے جانے والے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق بات رکھی جاتی ہے تو وہ قبول کرتے ہیں ، جب ان سے حق کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ خرچ کرتے ہیں اور لوگوں کے حق میں وہی فیصلہ کرتے ہیں جو اپنی ذات کے بارے میں کرتے ہیں ۔"
تشریح :
اسی حدیث میں عادل حکمرانوں کے تین اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ان کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عنایات وکرم اور ان کے سایہ کے سب سے پہلے مستحق ہوں گے عادل حکمرانوں کا پہلا وصف تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ان کے سامنے رعایا کی بھلائی وبہتری اور عدل ومساوت کے تعلق سے کوئی صحیح اور حق بات پیش کی جاتی ہے تو وہ اس کو قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ۔
دوسرا وصف یہ ہے کہ جب رعایا ان سے اپنا حق مانگتی ہے تو وہ اس کا حق دیتے ہیں اور لوگوں کی بھلائی اور بہتری اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور تیسرا وصف یہ ہے کہ وہ جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اسی کو رعایا کے لئے بھی پسند کرتے ہیں اگر وہ راحت اور اپنا چین چاہتے ہیں تو رعایا کے حق میں بھی یہ یہی چاہتے ہیں کہ عام لوگ راحت وچین اور امن وسکون کے ساتھ رہیں ، خود غرض اور عیش کوش حکمرانوں کی طرح کا شیوہ یہ نہیں ہوتا کہ خود تو عیش وعشریت اور شہوت رانیوں میں مبتلا رہیں اور رعایا کو سختی اور تنگی اور بدحالی میں رہنے دیں ۔