حق تلفی کرنے والے حاکم کے خلاف تلوار اٹھانے سے صبر کرنا بہتر ہے
راوی:
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كيف أنتم وأئمة من بعدي يستأثرون بهذا الفيء ؟ " . قلت : أما والذي بعثك بالحق أضع سيفي على عاتقي ثم أضرب به حتى ألقاك قال : " أولا أدلك على خير من ذلك ؟ تصبر حتى تلقاني " . رواه أبو داود
اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمیں مخاطب کر کے ) فرمایا " میرے بعد تم حاکموں اور سرداروں کے ساتھ اس وقت کیا برتاؤ کرو گے جبکہ وہ اس فئی کو خود رکھ لیں گے (یا آیا صبر کی راہ اختیار کرو گے یا ان کے خلاف تلوار اٹھاؤ گے ؟) میں نے عرض کیا " سن لیجئے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں ! اپنی تلوار کاندھے پر رکھوں گا اور پھر اس کے سبب ) آپ سے جا ملوں گا ۔" (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کیا میں تمہیں اس تلوار اٹھانے ) سے بہتر بات نہ بتا دوں ؟ (تو سنو ) تم اس وقت صبر کی راہ اختیار کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو! (کیونکہ کسی دنیاوی حق کے تلف ہونے کی صورت میں تلوار اٹھانے سے صبر کرنا اور خاموش رہنا بہتر بھی ہے اور دنیا کی چیزوں سے بے رغبتی اور زہد کے شایان شان بھی ہے ۔" (ابو داؤد)
تشریح :
فئی اس مال کو کہتے ہیں کہ جو کفار سے بغیر جنگ وجدل کے حاصل ہو، جیسے خراج و جزیہ یا اس قسم کے وہ دوسرے ٹیکس جو اسلامی مملکت میں غیر مسلموں سے وصول کئے جاتے ہیں اور کفار سے جو مال جنگ وجدل سے حاصل ہوتا ہے اس کو" غنیمت " کہتے ہیں ۔فئی کا حکم یہ ہے کہ حاصل شدہ مال کے چار حصے تو تمام مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ان کے درمیان تقسیم کیا جائے اور پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کر دیا جائے جب کہ غنیمت میں جو مال حاصل ہوتا ہے اس کے چار حصے بیت المال میں داخل ہوتے ہیں اور پانچواں حصہ مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اس فئی کے بارے میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اگر کوئی حکمران اس کو اپنے تصرف میں لے آئے اور مستحقین میں تقسیم نہ کرے تو اگرچہ یہ حق تلفی ہے اور مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس حکمران سے اپنا اپنا حصہ وصول کریں لیکن محض اس مال کے لئے اس حکمران کے خلاف تلوار اٹھانے اور تشدد کی راہ اختیار کرنے سے یہ بہتر یہ ہے کہ صبر کی راہ اختیار کی جائے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کے مفہوم میں فئی اور غنیمت دونوں شامل ہیں ، نیز اس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جو حکمران فئی یا غنیمت کے سارے مال کو اپنے تصرف میں لا کر بیت المال کو نقصان پہنچائے گا اور مسلمانوں کو حق تلفی کرے گا وہ ظالم ہے ۔