بیع حبل الحبلہ کی ممانعت
راوی:
وعن ابن عمر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن بيع حبل الحبلة وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة ثم تنتج التي في بطنها
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع حبل الحبلہ یعنی جانور کا حمل بیچنے سے منع فرمایا ہے حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ بیع حبل الحبلہ ایام جاہلیت میں رائج ایک بیع تھی جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص اس وقت تک کے وعدے پر اونٹنی خریدتا تھا جب تک کہ اس کے پیٹ سے بچہ پیدا ہو اور پھر اس بچے کے پیٹ سے بچہ پیدا ہو یعنی وہ اس وعدے پر اونٹنی خریدتا تھا کہ جب اس اونٹنی کے پیٹ سے پیدا ہونیوالے بچے کے پیٹ سے بچے پیدا ہوگا تب اس کی قیمت ادا کروں گا (بخاری ومسلم)
تشریح :
جانور کے حمل کے حمل کی بیع کا مطلب یہ ہے کہ مثلا ایک اونٹنی کے پیٹ میں بچہ ہے اب اس کا مالک اس طرح خریدار سے معاملہ کرے کہ اس اونٹنی کے پیٹ سے جو اونٹنی پیدا ہو گی اور وہ اونٹنی جو بچہ دے گی اس کی بیع کرتا ہوں اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ ایک معدوم چیز یعنی اس بچہ کی بیع ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ہے ظاہر ہے کہ جب کسی جانور کے حمل ہی کو بیچنا جائز نہیں ہے تو اس بچہ کی بیع کیسے جائز ہو سکتی ہے جو اس حمل کے حمل سے پیدا ہوگا۔
بعض حضرات کے نزدیک بیع حبل الحبلہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی حاملہ اونٹنی کو اس وعدے پر بیچے کہ اس کی قیمت اس وقت ادا ہوگی جب وہ بچہ جنے گی ۔ حضرت ابن عمر نے یہی مطلب مراد لیا ہے جیسا کہ روایت کے آخر میں (وکان مبیعا) الخ سے انہوں نے خود اس کی وضاحت کی ہے