مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 816

حکومت وامارت کے طلب گار نہ بنو

راوی:

وعن عبد الرحمن بن سمرة قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها "
(2/338)

3681 – [ 21 ] ( صحيح )
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة " . رواه البخاري
(2/338)

3682 – [ 22 ] ( صحيح )
وعن أبي ذر قال : قلت : يا رسول الله ألا تستعملني ؟ قال : فضرب بيده على منكبي ثم قال : " يا أبا ذر إنك ضعيف وإنها أمانة وإنها يوم القيامة خزي وندامة إلا من أخذها بحقها وأدى الذي عليه فيها " . وفي رواية : قال له : " يا أبا ذر إني أراك ضعيفا وإني أحب لك ما أحب لنفسي لا تأمرن على اثنين ولا تولين مال يتيم " . رواه مسلم

اور حضرت عبدالرحمن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم حکومت و سیادت کو طلب نہ کرو کیونکہ اگر تمہاری خواہش اور طلب پر تم کو حکومت وسیادت دی گئی تو تمہیں اسی کے سپرد کر دیا جائے گا (تا کہ تم اس منصب کی ذمہ داریوں کو انجام دو درآنحالیکہ منصب وامارت کی ذمہ داریاں اتنی دشوار اور مشقت طلب ہیں کہ بغیر مدد الہٰی کے کوئی شخص ان کو انجام نہیں دے سکتا اور اگر تمہاری خواہش وطلب کے بغیر تمہیں حکومت وسیادت ملے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے گی (یعنی حق تعالیٰ کی طرف سے تمہیں یہ توفیق بخشی جائے گی کہ تم عدل وانصاف اور نظم وضبط کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں کو انجام دے سکو۔" (مسلم )

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں دیکھ رہا ہوں ) تم آنے والے زمانے میں حکومت وسیادت کی حرص میں مبتلا ہو گے حالانکہ وہ حکومت وسیادت (جو حرص وطلب کے ساتھ ملے ) قیامت کے دن پشیمانی کا موجب ہے (یاد رکھو) حکومت وسیادت دودھ چھڑانے والی عورت کی طرح بری لگتی ہے لہٰذا یہ بات مرد دانا کے لائق نہیں ہے کہ وہ ایسی لذت کے حصول کی خواہش وکوشش کرے جس کا انجام حسرت وغم ہے۔

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے (کسی جگہ کا ) عامل (حاکم) کیوں نہیں بنا دیتے ؟
حضرت ابوذر کا بیان ہے (میری یہ بات سن کر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ازراہ لطف وشفقت ) میرے مونڈھے پر اپنا ہاتھ مارا اور پھر فرمایا کہ " ابوذر ! تم نا تو اں ہو اور یہ سرداری (خدا کی طرف سے ) ایک امانت ہے ) جس کے ساتھ بندوں کے حقوق متعلق ہیں اور اس میں خیانت نہیں کرنی چاہئے ) اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ) سرداری قیامت کے دن رسوائی وپیشمانی کا باعث ہوگی الاّ یہ کہ جس شخص نے اس (سرداری کو حق کے ساتھ حاصل کیا اور اس حق کو ادا کیا جو اس سرداری کے تئیں اس پر ہے (یعنی جو شخص مستحق ہونے کی وجہ سے سردار بنایا گیا اور پھر اس نے اپنے زمانہ میں حکومت میں عدل وانصاف کا نام روشن کیا اور رعایا کے ساتھ احسان وخیر خواہی کا برتاؤ کیا تو وہ سرداری اس کے لئے رسوائی اور وبال کا باعث نہیں ہوگی ) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ابوذر ! میں تمہیں نا تو اں دیکھتا ہوں (کہ سرداری کا بار برداشت نہیں کر سکو گے ) اور میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند کرتا ہوں جو میں اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہوں تم دو آدمیوں کا بھی سردار وعامل نہ بننا اور کسی یتیم کے بھی مال کی کار پردازی ونگرانی نہ کرنا ۔" (مسلم)

تشریح :
جو میں اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہوں " کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں تمہاری طرح ضعیف ونا تو اں ہوتا تو میں اس سرداری وحاکمیت کے بوجھ کو نہ اٹھاتا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے قوت بھی دی ہے اور پھر تحمل بھی عطا کیا ہے ، اگر حق تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو تحمل عطا نہ ہوتا تو میں ہرگز اس بار کو برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ حکومت وسیادت سے پرہیز کرنے کے بارے میں یہ حدیث اصل میں عظیم اور سب سے بڑی رہنما ہے بطور خاص اس شخص کے لئے جو اس منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو! ۔"

یہ حدیث شیئر کریں