خلیفہ وامیر کی موجودگی میں اگر کوئی شخص خلافت وامارت کا دعوی کرے تو اس کو تسلیم نہ کرو
راوی:
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء كلما هلك نبي خلفه نبي وإنه لا نبي بعدي وسيكون حلفاء فيكثرون " قالوا : فما تأمرنا ؟ قال : " فوا بيعة الأول فالأول أعطوهم حقهم فإن الله سائلهم عما استرعاهم "
(2/337)
3676 – [ 16 ] ( صحيح )
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما " . رواه مسلم
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا " بنی اسرائیل کو انبیاء ادب وتہذیب سکھایا کرتے تھے چنانچہ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کا جانشین کوئی دوسرا نبی ہو جاتا (اس طرح یکے بعد دیگرے انبیاء اپنی قوم کی تربیت کیا کرتے تھے ۔') لیکن میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے البتہ میرے بعد امراء وخلفاء ہونگے اور بہت ہوں گے (جن کے ذمے ) امت کی راہنمائی ونگہبانی ہوگی صحابہ نے عرض کیا کہ " جب بیک وقت متعدد امراء ملک وامت کی سیادت کے دعویدار ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے تو ) اس وقت کے لئے آپ ہمیں کیا ہدایت فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پہلے امیر کی بیعت پوری کرو (پھر دوسرے زمانہ میں ) پہلے امیر کی (یعنی جب بھی بیک وقت مثلًا امیر اپنی سیادت کا دعویٰ کریں تو اس امیر کی بیعت وطاعت کرو جو پہلے مقرر ہوا ہو اور دوسرے کی مطلق پیروی نہ کرو) اور ان کے حقوق ادا کرو اور جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی مخلوق کی نگہداشت وحکومت کی ذمہ داری سونپی ہے اس کے بارے میں وہ خود ان سے پوچھ لے گا ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
( فوابیعۃ الا ول فالاول) کا مطلب یہ ہے کہ خلفیہ وامیر کی بیت پوری کرو جو پہلے مقرر ہوا پھر اس خلیفہ وامیر کی واطاعت کرو جو اس کے بعد مقرر ہوا! اور اس دوسرے خلیفہ وامیر کو " اول " اس امیر وخلیفہ کی نسبت سے فرمایا گیا ہے جو اس کے بعد مقرر ہوگا ۔ گویا حاصل یہ ہے کہ جس طرح علی الترتیب ایک کے بعد دوسراخلیفہ مقرر ہو اس طرح تم بھی ترتیب کے ساتھ ایک کے بعد دوسرے خلیفہ کی بیعت واطاعت کرنا ہے ہاں اگر ایک ہی وقت میں دو شخص امارت وخلافت کا دعوی کریں تو تم اس شخص کی بیعت وطاعت کرو جو پہلے مقرر ہوا ہے اور دوسرے کے بارے میں یہ سمجھو کہ یہ شخص حکومت و سیاست کے لالچ میں غلط دعوی کر رہا ہے لہٰذا اس کو اپنا خلیفہ وامیر ماننے سے انکار کر دو چنانچہ آگے جو حدیث آ رہی ہے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے ۔
(اعطوہم حقہم) (ان کے حقوق ادا کرو ) گویا پہلے جملہ (فوبیعۃ الاول) (پہلے امیر کی اطاعت پوری کرو ) کا بدل ہے اور حدیث کے آخری الفاظ یعنی (فان اللہ سائلہم) الخ دراصل پہلے جملہ کی علت کو بیان کرتے ہیں جس میں خلیفہ وامیر کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، گویا اس جملہ میں اختصار کو اختیار کیا گیا ہے پورا مفہوم یہ ہے کہ تم ان کے حقوق ادا کرو اگرچہ وہ تمہارے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کریں ۔
حدیث کے آخر میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ خلیفہ وامیر (سربراہ مملکت) کو رعایا کے حقوق کی حفاظت وادائیگی کی جو (ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اس کے لئے قیامت کے دن احکم الحاکمین کی بارگارہ میں جواب دہ ہوگا ، اس نے دنیا میں جن لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہوگی اس سے ان لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرائی جائے گی اور وہ اس پر قادر نہ ہو سکے تو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔
اور حضرت ابوسعید راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو ان میں سے جو بعد کا ہے اس کو قتل کر ڈالو۔" (مسلم )
تشریح :
اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ پہلے سے مقرر خلیفہ وامیر کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص اپنی خلافت وامارت کا اعلان کر دے اور لوگوں سے بیعت لینے لگے تو اس سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ راہ راست پر آ جائے اور اللہ کے حکم کے مطابق پہلے سے مقرر خلیفہ وامیر کی اطاعت قبول کرلے یا اسی حالت میں مارا جائے کیونکہ وہ اللہ کے حکم اور اسلامی مملکت کا باغی ہے اور باغی کی یہی سزا ہے کہ اگر وہ اپنی بغاوت سے باز نہ آئے تو اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔
بعض حضرات نے " اس کو قتل کر ڈالو" کی مراد یہ بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کر لیا ہے اور وہ اپنی بیعت اور اپنا عہد فسخ کر دیں اور اس شخص کو اس طرح کمزور کر دیں کہ وہ خلیفہ کے خلاف شورش نہ پھیلا سکے ۔