اطاعت و فرمانبرداری کا عہد
راوی:
وعن عبادة بن الصامت قال : بايعنا رسول الله صلى الله عليه و سلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره وعلى أثرة علينا وعلى أن لا ننازع الأمر أهله وعلى أن نقول بالحق أينما كنا لا نخاف في الله لومة لائم . وفي رواية : وعلى أن لا ننازع الأمر أهله إلا أن تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان
(2/335)
3667 – [ 7 ] ( متفق عليه )
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه و سلم على السمع والطاعة يقول لنا : " فيما استطعتم "
اور حضرت عبادہ ابن صامت کہتے ہیں کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی یعنی آپ کے روبرو ان امور کا عہد کیا کہ " ہم (آپ کی ہدایات کو توجہ سے ) سنیں گے (اور ہر قسم کے حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی ) اطاعت کریں گے تنگی اور سخت حالات میں بھی اور آسان و خوش آئند زمانہ میں بھی ، خوشی کے موقع پر بھی اور ناخوشی کی حالت میں ہم پر ترجیح دی جائے گی (تو ہم صبر کریں گے ۔ ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے ہم (جب زبان سے کوئی بات کہیں کے تو ) حق کہیں گے خواہ ہم کسی جگہ ہوں (اور کسی حال میں ہوں ) اور ہم اللہ کے معاملے میں (یعنی دین پہنچانے اور حق بات کہنے میں ) کسی ملامت کرنے والے شخص کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ (ہم نے اس بات کا عہد کیا کہ ہم امر کو جگہ سے نہیں نکالیں گے ۔" (چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امر کو اس کی جگہ سے نہ نکالو ) ہاں اگر تم صریح کفر دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے (یعنی قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کی صورت میں دلیل ہو (اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں امر کو اس کی جگہ سے نکالنے کی اجازت ہے ۔" ( بخاری ومسلم )
تشریح :
" ہم پر ترجیح دی جائے گی " کا مطلب یہ ہے کہ ہم انصارنے یہ بھی عہد کیا کہ اگر ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے گی ہم صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے ۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا تھا کہ (میرے بعد تم لوگوں سے ترجیحی سلوک ہوگا یعنی بخشش وانعام اور اعزاز مناصب کی تقسیم کے وقت تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح وتفصیل دی جائے گی ایسے موقع پر تم لوگ صبر کرنا " چنانچہ آپ کی یہ پیش گوئی ثابت ہوئی کہ خلفاء راشدین کے زمانے کے بعد جب امراء کا عہد حکومت شروع ہوا تو انصار کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا گیا اور انصار نے بھی آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اور اپنا عہد نباہتے ہوئے اس ترجیحی سلوک کے خلاف شکوہ شکایت کرنے کی بجائے صبر وتحمل کی راہ کو اختیار کیا ۔
" ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے " کا مطلب یہ ہے کہ ہم امارت وحکومت کی طلب وخواہش نہیں کریں گے ہم پر جس شخص کو امیر وحاکم بنا دیا جائے گا ہم اس کو معزول نہیں کریں گے اور اپنے امیر وحاکم کے خلاف ہنگامہ آرائی کر کے کوئی شورش پیدا نہیں کریں گے ۔
روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر وحاکم کے قول وفعل میں صریح کفر دیکھو تو اس کو معزول کر دینے کی اجازت ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا واجب ہوگا ۔