امارت وقضاء کا بیان
راوی:
امارت سے مراد " سرداری وحکمرانی " ہے اور قضاء سے مراد " شرعی عدالت " ہے اسلامی نظام حکومت کی عمارت کے یہ دو بنیادی ستون ہیں ! امیر وامام (یعنی سربراہ مملکت) اسلام کے قانون اساسی کا محافظ ، نظم حکومت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذمہ دار حفاظت مذہب اور امت اسلامیہ کی طاقت و قوت کا امین ، اور امور عامہ کا نگہبان ہوتا ہے اسلامی معاشرہ کے افراد کا تعلق جن امور سے ہے ان سب پر امیر وامام ہی کا اختیار کار فرما ہوتا ہے ۔
قاضی ، اسلامی عدالت کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے شہریوں کے حقوق (امن ، آزادی ، مساوات ) کا محافظ ہوتا ہے اور وہ معاملات کا فیصلہ کرنے میں شریعت کی طرف سے حکم کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے نزاعی مقدمات کا شریعت کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کا اس سے بڑا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ عدل وانصاف ، دیانت داری اور ایمانداری کے تقاضوں کو ہر حالت میں مدنظر رکھے ۔
اسلام اور حکومت
اسلام ، دنیا کا یگانہ مذہب بھی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اسلام جس طرح انسانیت عامہ کی دینی ، مذہبی اور اخلاقی ، اخروی فلاح کا سب سے آخری اور مکمل قانون ہدایت ہے اس طرح وہ ایک ایسی لافانی سیاسی طاقت بھی ہے جو انسانوں کے عام فائدے ، عام بہتری اور عام تنظیم کے لئے حکومت وسیاست سے اپنے تعلق کو برملا اظہار کرتی ہے ۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ مذہب کی حیثیت سے کچھ اور بھی ہے اس کو حکومت حاکمیت ، سیاست اور سلطنت سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بھی بڑی حقیقت سے ہو سکتا ہے اس کو محض ایک ایسا نظام نہیں کہا جا سکتا ہے جو صرف باطن کی اصلاح کا فرض انجام دیتا ہے بلکہ اس کو ایسا دینی نظام بھی سمجھنا چاہئے جو اللہ ترس وخدا شناس روح کی قوت سے دنیا کے مادی نظام پر عالمگیر غلبہ کا دعوی رکھتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جو اسلامی تصورات ونظریات کا سر چشمہ ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایات کی شارح و ترجمان ہیں ، ان کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور حکومت وسیاست کے تعلق کو ثابت کرتا ہے کہیں تاریخی انداز میں ، کہیں تعلیمات کے پیرایہ میں اور کہیں نعمت الہٰی کو ظاہری کرتے ہوئے ہم پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اسلام اور حکومت اللہ کا حق ہے اس لئے اسلام کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ اس زمین پر اللہ کی حکومت قائم کی جائے اور اس کا اتارا ہوا قانون نافذ کیا جائے ۔
ہم میں سے جو کج فکر لوگ " مذہب اور سیاست " کے درمیان تفریق کی دیوار حائل کر کے اسلام کو سیاست و حکومت سے بالکل بے تعلق وبے واسطہ رکھنا چاہتے ہیں وہ دراصل مسلم مخالف عناصر کے اس شاطر دماغ کی سازش کا شکار ہیں جو خود تو حقیقی معنے میں آج تک حکومت کو " مذہب " سے آزاد نہ کر سکا لیکن مسلمانوں کی سیاسی پرواز اور ہمہ گیر پیش قدمی کو مضمحل کرنے کے لئے " مذہب " اور سیاست وحکومت " کی مستقل بحثیں پیدا کر کے مسلمانوں کے چشمہ فکر وعمل میں دین اور دنیا کی پلیدگی کا زہر گھول رہا ہے ۔
کتاب الامارۃ والقضاء سے اس کتاب جو حصہ شروع ہو رہا ہے اور اس میں جو احادیث نقل ہوں گی وہ اس دعوی کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام اور حکومت و سیاست دو متضاد چیزیں نہیں ہیں ان احادیث میں امیر وخلیفہ قاضی و منصف ، عوام اور رعایا ، ملک و فوج اور نظم مملکت کے دیگر گوشوں سے متعلق جو ہدایات واحکام بیان کئے جائیں گے ان سے واضح ہوگا کہ حکومت وسیاست بھی اسلام کا ایک موضوع ہے ۔