ضائع ہوجانیوالی مبیع کا ذمہ دار کون ہے
راوی:
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لو بعت من أخيك ثمرا فأصابته جائحة فلا يحل لك أن تأخذ منه شيئا بم تأخذ مال أخيك بغير حق ؟ " . رواه مسلم
حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھ پھل بیچا اور کوئی ایسی آفت آئی کہ وہ پھل ضائع ہو گیا تو تمہارے لئے اس سے کچھ لینا حلال نہیں ہے ( تم خود سوچو کہ ایسی صورت میں ) ایک بھائی کا مال ناحق کیسے لو گے) مسلم)
تشریح :
ا یت (فلا یحل لک) اس سے کچھ بھی لینا حلال نہیں ہے یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ میع بالکلیۃ اور مطلقًا ضائع ہو جائے اور اگر کوئی ایسی آفت آئے کہ جس سے مبیع کا کچھ حصہ نقصان ہو تو اس صورت میں قیمت میں کچھ کمی کر دینی چاہئے جیسا کہ گذشتہ حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے اس حدیث کے بارے میں بھی وہی تشریح سامنے رہنی چاہئے جو گذشتہ حدیث کے سلسلے میں گذری ہے چنانچہ اس موقع پر حضرت ابن مالک نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ اگر مبیع خریدار کی سپردگی میں جانے سے پہلے ضائع ہو جائے تو اس کا نقصان بیچنے والے کو برداشت کرنا ہوگا اس صورت میں حدیث کی کوئی تاویل کرنے ہی کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر مبیع خریدار کی سپردگی وقبضہ میں جانے کے بعد ضائع ہو تو پھر کہا جائے گا کہ حدیث گرامی کے الفاظ اس سے کچھ بھی لینا حلال نہیں ہے" کا مطلب یہ ہے کہ ازروئے تقوی وورع اور ازراہ اخلاق واحسان خریدار سے کچھ بھی لینا حلال (مناسب) نہیں ہے۔