کسی گنا ہگار پر لعنت بھیجنا جائز ہے
راوی:
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلا اسمه عبد الله يلقب حمارا كان يضحك النبي صلى الله عليه و سلم وكان النبي صلى الله عليه و سلم قد جلده في الشراب فأتي به يوما فأمر به فجلد فقال رجل من القوم : اللهم العنه ما أكثر ما يؤتى به فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " لا تلعنوه فو الله ما علمت أنه يحب الله ورسوله " . رواه البخاري
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ تھا مگر اس کی بیوقوفی کی وجہ سے اس کو حمار یعنی گدھا کہا جاتا تھا وہ اپنی حماقت آمیز باتوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ شراب پینے کے جرم میں اس پر حد جاری فرما چکے تھے پھر وہ ایک اور دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور اس کو کوڑے مارے گئے حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ تیری لعنت ہو ، اس کو کتنی کثرت کے ساتھ بار بار شراب پینے کے جرم میں پکڑ کر لایا جاتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو اللہ کی قسم میں یہ جانتا ہوں کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے ۔" (بخاری)
تشریح :
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی گنہگار کو مخصوص کر کے اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت قرب الہٰی کا سبب ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھنے والے پر لعنت بھیجنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور کرنا ۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے شراب نوشی کا ارتکاب کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی پٹائی کرو چنانچہ ہم میں سے بعض نے اس کو اپنے ہاتھ سے مارا بعض نے اپنے جوتوں سے مارا اور بعض نے اپنے کپڑے کا کوڑا بنا کر اس سے مارا جب وہ شخص واپس جانے لگا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو ذلیل ورسوا کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اس طرح نہ کہو اور اس پر غالب ہونے میں شیطان کی مدد نہ کرو ۔" (بخاری)