ثبوت جرم کے بغیر سزا نہیں
راوی:
وعن ابن عباس قال : شرب رجل فسكر فلقي يميل في الفج فانطلق به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما حاذى دار العباس انفلت فدخل على العباس فالتزمه فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فضحك وقال : " أفعلها ؟ " ولم يأمر فيه بشيء . رواه أبو داود
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے شراب پی اور بدمست ہوگیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو راستہ میں اس حال میں پایا کہ وہ جھومتا چلا جاتا تھا جیسا کہ شرابیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نشہ کی حالت میں لڑکھڑاتے جھومتے راستہ چلتے ہیں ، چنانچہ لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلے ، لیکن جب وہ حضرت عباس کے مکان کے قریب پہنچا تو لوگوں کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حضرت عباس کے پاس پہنچ کر ان سے چمٹ گیا یعنی اس نے اس طرح حضرت عباس سے سفارش اور پناہ چاہی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے اور فرمایا کیا اس نے ایسا کہا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا ۔" (ابو داؤد)
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اس شخص پر حد جاری کرنے کا حکم دیا اور نہ اس کو کوئی دوسری سزا دی اس کا سبب یہ تھا کہ اس کا شراب پینا نہ تو خود اس کے اقرار سے اور نہ عادل گواہوں کی گواہی کے ذریعہ ثابت ہوا ۔ اگر وہ دربار رسالت میں حاضر ہو کر اپنی شراب نوشی کا اعتراف واقرار کرتا یا گواہوں کے ذریعہ اس کی شراب نوشی کا جرم ثابت ہوتا تو یقینا اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا جاتا ۔ اور جہاں تک اس شخص کا راستہ میں نشہ کی حالت میں پائے جانے کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ ہے کہ شرعی قانون کی نظر میں کسی شخص کا محض راستہ میں لڑکھڑاتے اور جھومتے ہوئے چلنا اس نشہ کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے جو اس پر حد کے جاری ہونے کو واجب کرے ۔