مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کے مقدمہ میں سفارش کا بیان ۔ حدیث 761

اقرار جرم پر چوری کی سزا

راوی:

وعن أبي أمية المخزومي : أن النبي صلى الله عليه و سلم أتي بلص قد اعترف اعترافا ولم يوجد معه متاع فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما إخالك سرقت " . قال : بلى فأعاد عليه مرتين أو ثلاثا كل ذلك يعترف فأمر به فقطع وجيء به فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " استغفر الله وتب إليه " فقال : أستغفر الله وأتوب إليه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اللهم تب عليه " ثلاثا . رواه أبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي هكذا وجدت في الأصول الأربعة وجامع الأصول وشعب الإيمان ومعالم السنن عن أبي أمية
(2/322)

3613 – [ 4 ] وفي نسخ المصابيح عن أبي رمثة بالراء والثاء المثلثة بدل الهمزة والياء

اور حضرت ابوامیہ مخزومی بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چور کو پیش کیا گیا جس نے اپنے جرم کا صریح اعتراف واقرار کیا لیکن (چوری کے مال میں سے ) کوئی چیز اس کے پاس نہیں نکلی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ " میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہے " اس نے کہا کہ " ہاں ! میں نے چوری کی ہے " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار یا تین بار یہ کہا (کہ میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہے ) مگر وہ ہر بار یہ اعتراف واقرار کرتا تھا (کہ میں نے چوری کی ہے ) آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کیا پھر کٹنے کے بعد ) اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ " (اپنی زبان کے ذریعہ ) اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو (اور اپنے دل کے ذریعہ ) اس کی طرف متوجہ ہو۔" اس نے کہا میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں (یعنی توبہ کرتا ہوں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا " اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فرما ۔" (ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) اور صاحب مشکوٰ ۃ فرماتے ہیں کہ ) میں نے اس روایت کو ان چاروں اصل کتابوں (ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) میں جامع الاصول میں ، بہیقی کی شعب الایمان میں ، اور خطابی کی معالم السنن میں اسی طرح یعنی ابوامیہ سے منقول پایا ہے لیکن مصابیح کے بعض نسخوں میں اس روایت میں ابورمثہ (ہمزہ اور یا کی بجائے را مکسورہ اور ثا مثلثہ کے ساتھ ) منقول ہے مگر حضرت شیخ حافظ ابن حجر عسقلانی نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت کا ابورمثہ سے منقول ہونا غلط ہے ، اور ابورمثہ اگرچہ صحابی ہیں لیکن یہ روایت ان سے منقول نہیں ہے ۔' '

تشریح :
" اس ارشاد میں ، میں خیال نہیں کرتا الخ " سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء یہ تھا کہ وہ شخص اپنے اعتراف سے رجوع کرے تاکہ اس پر حد ساقط ہو جائے اور اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زنا کا اقرار کرنے والوں کے سامنے اس طرح کے جملے ارشاد فرماتے تھے جن کا مقصد " تلقین عذر " ہوتا تھا ۔ یہ حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور دوسرے آئمہ کے نزدیک اس طرح کی " تلقین عذر اور تلقین رجوع " صرف زنا کی حد کے ساتھ مخصوص ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جو استغفار کا حکم دیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص پر حد جاری ہوئی ہے اس کو وہ حد بالکل (یعنی تمام گناہوں سے ) پاک نہیں کرتی بلکہ اس کے اسی گناہ کو ختم کرتی ہے جس کی وجہ سے اس پر حد جاری ہوئی ہے کہ حد جاری ہو جانے کے بعد وہ پروردگار کی جانب سے اس کے سبب دوبارہ عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں