مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کے مقدمہ میں سفارش کا بیان ۔ حدیث 760

حد میں سفارش کرنے والا گویا اللہ کے حکم کی مخالف کرنے والا ہے

راوی:

عن عبد الله بن عمر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من حالت شفاعته دون حد من حدود الله فقد ضاد الله ومن خاصم في باطل وهو يعلمه لم يزل في سخط اله تعالى حتى ينزع ومن قال في مؤمن ما ليس فيه أسكنه الله ردغة الخبال حتى يخرج مما قال " . رواه أحمد وأبو داود وفي رواية للبيهقي في شعب الإيمان " من أعان على خصومة لا يدري أحق أم باطل فهو في سخط الله حتى ينزع "

" حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " جس شخص کی سفارش اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کے درمیان حائل ہو (یعنی جو شخص اپنی سفارش کے ذریعہ حاکم کو نفاذ حد سے روکے ) اس نے اللہ تعالیٰ سے ضد کی (اور گویا اس طرح اس نے اللہ تعالیٰ کی خلاف ورزی کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ حد جاری کی ) اور جو شخص جانتے ہوئے بھی کسی ناحق اور جھوٹی بات میں کسی سے جھگڑتا ہے ) تو وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے جب کہ اس سے باز نہ آجائے ۔ اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں پائی جاتی (یعنی مؤمن کو کوئی عیب لگائے یا اس کی طرف کسی غلط بات کی تہمت کر کے اس کو نقصان پہنچائے ) تو اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے یعنی جب تک کہ وہ توبہ کر کے اس گناہ سے نہ نکل آئے وہ دوزخیوں کی سی حالت میں رہے گا ، یا یہ کہ جب تک کہ وہ اس گناہ عذاب کو بھگت کر پاک نہ ہو جائے دوزخیوں کے درمیان رہے گا ) اس روایت کو احمد اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے ۔ اور بہیقی نے شعب الایمان میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ " جو شخص کسی ایسے جھگڑے میں مدد کرے جس کے حق و ناحق ہونے کا اس کو علم نہیں تو جب تک کہ وہ اپنی مدد سے باز نہ آجائے اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں