مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ ۔ حدیث 746

تمام ائمہ کے مسلک کے خلاف ایک حدیث اور اس کی وضاحت

راوی:

وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لعن الله السارق يسرق البيضة فتقطع يده ويسرق الحبل فتقطع يده "

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چور پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ وہ بیضہ چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ۔" (بخاری، مسلم )

تشریح :
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بلا تعین گہنگاروں پر لعنت بھیجنا جائز ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (الا لعنت اللہ علی الظالمین سے بھی ثابت ہے ہاں کسی شخص کو متعین کر کے یعنی اس کا نام لے کر اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے ۔
نصاب سرقہ کے سلسلے میں یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ چوتھائی دینار یا تین درہم سے بھی کم مالیت کی چوری پر قطع ید کی سزا جاری ہو سکتی ہے جب کہ چاروں ائمہ میں سے کسی کے بھی مسلک میں چوتھائی دینار یا تین درہم سے کم میں قطع ید کی سزا نہیں ہے اس اعتبار سے یہ حدیث تمام ائمہ کے مسلک کے خلاف ہے لہٰذا ان سب کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں بیضہ سے بیضہ آہن مراد ہے کہ جسے خود کہا جاتا ہے اور جس کو مجاہدین اور فوجی اپنے سروں پر پہنتے ہیں اسی طرح رسی سے کشتی کی رسی مراد ہے جو بڑی قیمتی ہوتی ہے علاوہ ازیں بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں انڈے اور رسی کے چرانے پر قطع ید کی سزا دی جاتی تھی مگر بعد میں اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا،
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ اس کو چوری کی عادت اسی عادت اسی طرح پڑتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور کمتر چیزیں چراتے چراتے بڑی بڑی اور قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے جس کے نتیجے میں اس کو قطع ید کی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں