جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے والے کی سزا
راوی:
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من أتى بهيمة فاقتلوه واقتلوها معه " . قيل لابن عباس : ما شأن البهيمة ؟ قال : ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه و سلم في ذلك شيئا ولكن أره كره أن يؤكل لحمها أو ينتفع بها وقد فعل بها ذلك . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی جانور سے ساتھ بدفعلی کرے اس کو قتل کر دو اس کے ساتھ اس جانور کو بھی قتل کر دو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا گیا کہ جانور کے بارے میں یہ حکم کیوں ہے یعنی نہ تو عقل رکھتا ہے اور نہ وہ مکلف ہے تو اس کو قتل کرنے کا کیوں حکم ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے اس کی حکمت ومصلحت کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں سنا ہے البتہ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ جس جانور کے ساتھ بدفعلی کی گئی ہے اس کا گوشت کھایا جائے یا اس کے دودھ بالوں اور اس کی افزائش نسل سے فائدہ اٹھایا جائے اور جب اس جانور سے کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھانا مکروہ ہوا تو پھر اس کو قتل کر دینا ہی ضروری ہے ۔" (ترمذی ، ابن ماجہ ، ابوداؤد )
تشریح :
اس کو قتل کر دو سے مراد یہ ہے کہ اس کی بہت سخت پٹائی کرو ۔گویا اس کو قتل کر دینے کا حکم سخت زجروتہدیر کے طور پر ہے اس کو واقعۃً قتل کر دینا مراد نہیں ہے ۔
" اس کے جانور کو بھی قتل کر دو " اس حکم کی حکمت وعلت بعض حضرات نے یہ بیان کی ہے کہ اگر وہ جانور زندہ رکھا گیا تو ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے اس کے ساتھ بد فعلی کی ہے اس کا نطفہ اس کے رحم میں قرار پا جائے اور اس کے نتیجہ میں ایک حیوان بصورت انسان پیدا ہو جائے اس لئے اس صورت حال سے بچنے کے لئے اس کو مار ڈالنا ہی ضروری ہے یا یہ کہ اس جانور کی موجودگی اس کے مالک کو دنیاوی ذلت ورسوائی سے دو چار کر سکتی ہے لہٰذا اس کو مار ڈالا جائے ۔
شرح مظہر میں لکھا ہے کہ چاروں امام اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص کسی جانور کے ساتھ بدفعلی کرے اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ تعزیرًا کوئی دوسری سزا دی جائے اور یہ حدیث زجر و توبیخ پر محمول ہے رہی جانور کی بات تو بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جانور ایسا ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے تو اس کو قتل کر دیا جائے اور اگر اس کا گوشت نہیں کھایا جاتا تو اس کے بارے میں دونوں صورتیں ہیں کہ اگر اس حدیث کا ظاہر مفہوم پیش نظر ہو تو اس کو قتل کر دیا جائے اور اگر اس کو ملحوظ رکھا جائے کہ جانور کا گوشت کھانا مقصود یا حلال نہ ہو اس کو ذبح کرنے کی ممانعت منقول ہے تو اس جانور کو قتل نہ کیا جائے ۔