مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 721

مریض پر حد جاری کرنے کا مسئلہ

راوی:

وعن علي رضي الله عنه قال : يا أيها الناس أقيموا على أرقائكم الحد من أحصن منهم ومن لم يحصن فإن أمة لرسول الله صلى الله عليه و سلم زنت فأمرني أن أجلدها فإذا هي حديث عهد بنفاس فخشيت إن أنا جلدتها أن أقتلها فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فقال : " أحسنت " . رواه مسلم . وفي رواية أبي داود : قال : " دعها حتى ينقطع دمها ثم أقم عليها الحد وأقيموا الحدود على ما ملكت أيمانكم "

اور حضرت علی کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا " لوگو! اپنے غلام لونڈیوں پر حد جاری کرو یعنی اگر وہ زنا کے مرتکب ہوں تو پچاس کوڑے مارو خواہ وہ محصن یعنی شادی شدہ ہوں یا غیر محصن ۔" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی نے زنا کا ارتکاب کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس پر حد جاری کروں مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ ابھی حال ہی میں اس کی ولادت ہوئی ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اس کے پچاس کوڑے مارتا ہوں تو وہ مر جائے گی چنانچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا کہ اس حالت میں اس پر حد جاری نہیں کی ۔" (مسلم )
اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب حضرت علی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں ذکر کیا تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک کہ اس کا نفاس کا خون بند نہ ہو جائے اس وقت تک کے لئے اسے چھوڑ دو اس کے بعد اس پر حد جاری کرو اور اپنے بردوں غلام لونڈیوں پر حد جاری کیا کرو ۔"

تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حد کی سزا اور عورت اگر نفاس کی حالت میں ہو تو اس پر اس وقت تک حد جاری نہ کی جائے جب تک کہ وہ نفاس سے فارغ نہ ہو جائے کیونکہ نفاس ایک طرح کا مرض ہے اور مریض کو اس کے اچھا ہونے تک مہلت دینی چاہئے ۔
ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مریض ، زنا کا مرتکب ہو اور اس کے محصن شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کو رجم سنگساری کا سزا اور گردانا چکا ہو تو اس کو اسی مرض کی حالت میں رجم کیا جائے اور اگر اس کے غیر محصن غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کو کوڑے مارے جانے کا سزا وار گردانا گیا ہو تو پھر اس کو اس وقت تک کوڑے نہ مارے جائیں جب تک کہ وہ اچھا نہ ہو جائے ہاں اگر وہ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس سے بچنے کی امید نہ کی جاتی ہو جیسے دق وسل وغیرہ یا وہ ناقص وضعیف الخلقت ہو تو اس صورت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ سزا پوری کرنے کے لئے اس کو کھجور کی کسی ایسی بڑی شاخ سے مارا جائے جس میں چھوٹی چھوٹی سو ٹہنیاں ہوں اور وہ شاخ اس کو ایک دفعہ اس طرح ماری جائے کہ اس کی ایک ایک ٹہنی اس کے بدن پر لگ جائے اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لئے پھیلی ہوئی شاخ استعمال کرنا ضروری ہے ۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ تلف کے خوف سے کوڑے مارنے کی حد نہ تو شدید گرمی میں جاری کی جائے اور نہ سخت جاڑے میں بلکہ اس کے لئے معتدل موسم کا انتظار کیا جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں