مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 712

حدود کا بیان

راوی:

حد کے معنی :
حدود حد کی جمع ہے اور حد کے اصل معنی ہیں ممنوع نیز اس چیز کو بھی حد کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اصطلاح شریعت میں " حدود " ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں جیسے چوری ، زنا ، شراب نوشی کی سزائیں ۔ لفظ حد کے اصل معنی ممنوع یا حائل اگر پیش نظر ہوں تو واضح ہوگا کہ شرعی سزاؤں کو " حدود " اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے ۔
" حدود اللہ " محارم کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تقربوھا) اسی طرح مقادیر شرعی یعنی تین طلاقوں کا مقرر ہونا وغیرہ کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا) لیکن واضح رہے کہ ان دونوں میں بھی " حدود" کا اطلاق اصل معنی " ممنوع " ہی کے اعتبار سے ہے کہ محارم کی قربت (یعنی ان سے نکاح وخلوت ) بھی ممنوع ہے اور مقادیر شرعی سے تجاوز کرنا بھی ممنوع ہے ۔
سزا کی تفصیل
شرعی قانون نے" جرم وسزاء " کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں سزائیں تین طرح کی ہیں ۔
(١) وہ سزائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متعین کر دیا ہے مگر ان کے اجزاء کو خود بندوں پر چھوڑ دیا ہے ان میں کسی خارجی طاقت جیسے حاکم یا حکومت کو دخل انداز ہونے کا حکم نہیں ہے ، شریعت نے اس طرح کی سزا کا نام کفارہ رکھا ہے جیسے قسم کی خلاف ورزی یا رمضان میں بلا عذر شرعی روزہ توڑ دینے کا نام کفارہ !
(٢) وہ سزائیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں ، ان سزاؤں کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر ان میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے ، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے چوری ، زنا ، اور شراب نوشی کی سزائیں ۔
(٣) وہ سزائیں جنہیں کتاب وسنت نے متعین تو نہیں کیا ہے مگر جن برے کاموں کی یہ سزائیں ہیں ان کو جرائم کی فہرست میں داخل کیا ہے اور سزا کے تعین کا مسئلہ حاکم یا حکومت کے سپرد کر دیا ہے کہ وہ موقع ومحل اور ضرورت کے مطابق سزا خود متعین کریں گویا اس قسم کی سزاؤں میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرہ کے اندر رہ کر جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے اس طرح کی سزا شریعت میں " تعزیر " کہلاتی ہے ۔
حد اور تعزیر میں فرق
حد اور تعزیر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حد تو شریعت میں" عقوبت " ہے جو اللہ کا حق قرار دی گئی ہے اسی لئے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ اس میں کوئی بندہ تصرف نہیں کر سکتا ، اور تعزیر کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ بندہ اس میں تصرف کر سکتا ہے یعنی اگر وہ کوئی مصلحت دیکھے تو قابل تعزیر مجرم کو معاف بھی کر سکتا ہے اور موقع ومحل اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں کمی زیادتی اور تغیر وتبدل بھی کر سکتا ہے ، حاصل یہ کہ حد تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جس میں کوئی تصرف ممکن نہیں اور تعزیر قاضی یا حکومت کے سپرد ہے اسی عدم تقدیر وتحقیق کی بنا پر تعزیر کو حد نہیں کہا جاتا ۔
چونکہ " قصاص " بھی بندہ کا حق ہے کہ وہ اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کر سکتا ہے اس لئے اس کو بھی " حد " نہیں کہا جاتا ۔

یہ حدیث شیئر کریں