مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان ۔ حدیث 705

مسلمان ، کافروں میں مخلوط نہ رہیں

راوی:

وعن جرير بن عبد الله قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم سرية إلى خثعم فاعتصم ناس منهم بالسجود فأسرع فيهم القتل فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه و سلم فأمر لهم بنصف العقل وقال : " أنا بريء من كل مسلم مقيم بين أظهر المشركين " قالوا : يا رسول الله لم ؟ قال : " لا تتراءى ناراهما " . رواه أبو داود

اور حضرت جریر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کے مقاتلہ پر ایک لشکر بھیجا تو اس قبیلہ کے کچھ لوگ (جو اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ان کا رہن سہن قبیلہ کے کافروں ہی کے ساتھ تھا نماز کی پناہ پکڑنے لگے ) یعنی لشکر والوں کو علم ہو جائے کہ یہ مسلمان ہیں اور اس طرح وہ حملہ سے بچ جائیں لیکن ان کے قتل میں عجلت سے کام لیا گیا یعنی لشکر والوں نے ان کے سجدوں کا اعتبار نہ کیا اور یہ گمان کر کے کہ یہ بھی کافر ہیں اور محض قتل سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں ان کو بھی قتل کر دیا جب اس واقعہ کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسلمان مقتولین کے ورثاء کو آدھی دیت دیئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس مسلمان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کرے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کی بیزاری کا سبب کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دور رہنا چاہئے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (لیکن اگر کوئی مسلمان کافروں میں مخلوط رہا تو گویا اس نے حکم کی پرواہ نہیں کی ) ۔" (ابو داؤد)

تشریح :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقتولین کے مسلمان ہونے کا علم ہو جانے کے باوجود ان کے ورثاء کو پوری دیت کا حقدار قرار نہیں دیا بلکہ آدھی دیت دیئے جانے کا حکم فرمایا اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے مشرکین کے درمیان اقامت اختیار کر کے گویا خود اپنے قتل میں معاونت کی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اظہار بھی فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے اپنی بیزاری اور برأت کا اظہار کرتا ہو جو مشرکین اور کفار کے درمیان اقامت پذیر ہو ۔
" وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں ۔' کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے سے اتنی دور اقامت اختیار کریں کہ اگر دونوں طرف آگ جلائی جائے تو مسلمان کی آگ کافر نہ دیکھ سکیں اور کافروں کی آگ مسلمان نہ دیکھ سکیں ۔ جیسا کہ ترجمہ میں وضاحت کی گئی ہے اس جملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیزاری کی علت مذکور ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں کے متعلق ظاہر فرمائی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں