وہ تین صورتیں جن میں ایک مسلمان کو سزائے موت دی جاسکتی ہے
راوی:
وعن عائشة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله إلا بإحدى ثلاث زنا بعد إحصان فإنه يرجم ورجل خرج محاربا لله ورسوله فإنه يقتل أو يصلب أو ينفى من الأرض أو يقتل نفسا فيقتل بها " . رواه أبو داود
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نفس مسلمان کہ جو اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اس کا خون حلال نہیں ہے ہاں ان تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت واقع ہو جانے کی وجہ سے اس کا خون حلال ہو جاتا ہے ایک تو یہ کہ وہ محصن ہونے کے بعد زنا کرے تو اس کو سنگسار کر دیا جائے دوسری صورت یہ کہ کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے نکلے یعنی جو مسلمان قزاقی کرے یا بغاوت کی راہ پر لگ جائے تو اس کو قتل کر دیا جائے یا سولی دے دی جائے اور یا اس کو قید میں ڈال دیا جائے اور تیسری صورت قتل نفس کی ہے کہ جو مسلمان کسی کو عمدا قتل کر دے تو اس کے بدلے میں اس کو قتل کر دیا جائے ۔" (ابو داؤد )
تشریح :
" محصن " ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمان جو آزاد ہو مکلف ہو اور نکاح صحیح کے ساتھ صحبت کر چکا ہو یعنی شادی شدہ ہو اور پھر اس کے بعد زنا کا مرتکب ہو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو سنگسار کر کے ختم کر دیا جائے ۔
قزاقی کرنے والے کے بارے میں تین سزائیں بیان کی گئی ہیں ۔
(١) قتل کر دیا جائے ۔
(٢) سولی دیا جائے
(٣) قید میں ڈالا جائے ان تینوں میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ قزاق مال تو نہ لوٹ سکا ہو مگر اس نے کسی کو جان سے مار ڈالا ہو تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا اور اگر اس نے مال بھی لوٹا ہو اور کسی کو قتل بھی کیا ہو تو اس صورت میں اس کو سولی دی جائے گی ۔ اب اس کے متعلق حضرت امام مالک تو یہ فرماتے ہیں کہ اس کو زندہ سولی پر لٹکا دیا جائے تا کہ وہ مر جائے لیکن حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل کر کے اس کی لاش سولی پر لٹکا دی جائے تاکہ دوسرے لوگوں کو اس کے انجام سے عبرت ہو ۔
تیسری سزا قید کی ہے اس کے لئے حدیث میں (ینفیٰ فی الارض) کے الفاظ ہیں اس کے معنی حضرت امام شافعی کے نزدیک تو یہ ہے کہ اس کو مسلسل شہر بدر کیا جاتا رہے یعنی اسے کسی ایک شہر میں ٹھہرنے اور رہنے نہ دیا جائے بلکہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف نکالا جاتا رہے تاکہ اسے قرار وآرام نہ مل سکے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اس کو قید میں ڈال دیا جائے اور یہ قید کی سزا اس صورت میں ہے جب کہ اس نے نہ تو مال لوٹا ہو اور نہ کسی کو قتل کیا ہو بلکہ راہگیروں کو ڈرایا دھمکایا ہو اس طرح اس نے راستے کے امن وعافیت کی طرف سے لوگوں کو خوف وتشویش میں مبتلا کیا ہو حدیث کا یہ جزء جس میں قزاقوں اور راہزنوں کی مذکورہ بالا سزاؤں کا حکم ہے ؟ دراصل قرآن کریم کی اس آیت سے مستبظ ہے کہ :
ا یت (اِنَّمَا جَزٰ ؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْ ا اَوْ يُصَلَّبُوْ ا اَوْ تُ قَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْض ) ۔ 5۔ المائدہ : 33)
" جو لوگ اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد یعنی بدامنی پھلاتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں ، یا ان میں سے ہر ایک کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ دیا جائے یا زمین سے نکال کر جیل خانہ میں بھیج دیئے جائیں اس اعتبار سے بظاہر حدیث میں (او ینفیٰ فی الارض) سے پہلے یہ عبارت (او یقطع یدہ ورجلہ) میں خلاف بھی ہونی چاہئے تھی تا کہ یہ حدیث مذکورہ آیت کی پوری مطابق ہو جاتی لیکن یہ قوی احتمال ہے کہ اصل حدیث میں تو یہ عبارت رہی ہو البتہ یہاں حدیث کے راوی کی بھول سے نقل ہونے سے رہ گئی ہو یا راوی نے اختصار کے پیش نظر اس کو قصدًا حذف کر دیا ہے ۔"
حرف او حدیث میں بھی قرآن کی آیت میں بھی اظہار تفصیل کے لئے ہے لیکن بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تخییر کے لئے ہے یعنی یہ ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ امام وقت اور حاکم کو یہ اختیار ہے کہ وہ مذکورہ تفصیل کا لحاظ کئے بغیر ان سزاؤں میں سے جو سزا مناسب جانے قزاق کو دے ۔