مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قسامت کا بیان ۔ حدیث 688

قسم کی ابتداء مدعاعلیہ سے ہونی چاہئے

راوی:

عن رافع بن خديج قال : أصبح رجل من الأنصار مقتولا بخيبر فانطلق أولياؤه إلى النبي صلى الله عليه و سلم فذكروا ذلك له فقال : " ألكم شاهدان يشهدان على قاتل صاحبكم ؟ " قالوا : يا رسول الله لم يكن ثم أحد من المسلمين وإنما هو يهود وقد يجترئون على أعظم من هذا قال : " فاختاروا منهم خمسين فاستحلفوهم " . فأبوا فوداه رسول الله صلى الله عليه و سلم من عنده . رواه أبو داود

حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (یعنی عبداللہ ابن سہل ) خیبر میں قتل کر دئیے گئے چنانچہ ان کے ورثاء (یعنی ان کے بیٹے اور چچا زاد بھائی ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان ) سے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے مقتول کے بارے میں گواہی دیں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہاں کوئی مسلمان تو موجود نہیں تھا البتہ یہود تھے (جو ظلم کرنے ، فتنہ وفساد پھیلانے اور حیلہ گری میں بہت مشہور ہیں ) وہ تو اس سے بھی بڑے کام کی جرأت رکھتے ہیں (جیسے انبیاء کو قتل کر دینا ، کلام اللہ میں تحریف کرنا اور احکام الٰہی سے صریحا سرکشی کرنا ) آپ نے فرمایا " اچھا تو ان میں پچاس آدمیوں کو منتخب کر لو اور ان سے قسمیں لو " لیکن مقتول کے ورثاء نے یہودیوں سے قسم لینے سے انکار کر دیا (کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اتنے مکار ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا لیں گے ) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقتول کا خون بہا اپنے پاس سے دے دیا " ۔ (ابو داؤد )

تشریح :
ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہری مفہوم حنیفہ کے اس مسلک کی واضح دلیل ہے کہ قسامت میں پہلے مدعا علیہ سے قسم لینی چاہئے ۔
ملا علی قاری نے اس موقع پر تمام ائمہ کے مسلک کو نقل کرنے کے بعد حنیفہ ملک کے دلائل بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کئے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں