قسم کی ابتداء مدعاعلیہ سے ہونی چاہئے
راوی:
عن رافع بن خديج قال : أصبح رجل من الأنصار مقتولا بخيبر فانطلق أولياؤه إلى النبي صلى الله عليه و سلم فذكروا ذلك له فقال : " ألكم شاهدان يشهدان على قاتل صاحبكم ؟ " قالوا : يا رسول الله لم يكن ثم أحد من المسلمين وإنما هو يهود وقد يجترئون على أعظم من هذا قال : " فاختاروا منهم خمسين فاستحلفوهم " . فأبوا فوداه رسول الله صلى الله عليه و سلم من عنده . رواه أبو داود
حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (یعنی عبداللہ ابن سہل ) خیبر میں قتل کر دئیے گئے چنانچہ ان کے ورثاء (یعنی ان کے بیٹے اور چچا زاد بھائی ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان ) سے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے مقتول کے بارے میں گواہی دیں انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہاں کوئی مسلمان تو موجود نہیں تھا البتہ یہود تھے (جو ظلم کرنے ، فتنہ وفساد پھیلانے اور حیلہ گری میں بہت مشہور ہیں ) وہ تو اس سے بھی بڑے کام کی جرأت رکھتے ہیں (جیسے انبیاء کو قتل کر دینا ، کلام اللہ میں تحریف کرنا اور احکام الٰہی سے صریحا سرکشی کرنا ) آپ نے فرمایا " اچھا تو ان میں پچاس آدمیوں کو منتخب کر لو اور ان سے قسمیں لو " لیکن مقتول کے ورثاء نے یہودیوں سے قسم لینے سے انکار کر دیا (کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اتنے مکار ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا لیں گے ) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقتول کا خون بہا اپنے پاس سے دے دیا " ۔ (ابو داؤد )
تشریح :
ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہری مفہوم حنیفہ کے اس مسلک کی واضح دلیل ہے کہ قسامت میں پہلے مدعا علیہ سے قسم لینی چاہئے ۔
ملا علی قاری نے اس موقع پر تمام ائمہ کے مسلک کو نقل کرنے کے بعد حنیفہ ملک کے دلائل بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کئے ہیں۔