مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قسامت کا بیان ۔ حدیث 686

قسامت کا بیان

راوی:

" قسامت " ق کے زبر کے ساتھ قسم کے معنی میں ہے یعنی سوگند کھانا ۔شرعی اصطلاح میں " قسامت " کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی آبادی ومحلہ میں یا اس آبادی ومحلہ کے قریب میں کسی شخص کا قتل ہو جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے تو حکومت واقعات کی تحقیق کرے اگر قاتل کا پتہ چل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس آبادی یا محلہ کے باشندوں میں سے پچاس آدمیوں سے قسم لی جائے اس طرح کہ ان میں سے ہر آدمی یہ قسم کھائے کہ " اللہ کی قسم ! نہ میں نے اس کو قتل کیا ہے اور نہ اس کے قاتل کا مجھے علم ہے " یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے جس کی بنیاد یہ مشہور حدیث ہے کہ (البینہ علی المدعی والیمین علی من انکر ) چنانچہ اس باب کی تیسری فصل میں حضرت رافع ابن خدیج سے منقول روایت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے ۔
حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک " قسامت " کا مفہوم یہ ہے کہ جس آبادی ومحلہ میں یا جس آبادی ومحلہ کے قریب میں لاش پائی گئی ہے اگر اس کے باشندوں اور مقتول کے درمیان کوئی عداوت ودشمنی رہی ہو یا کوئی ایسی علامت پائی گئی ہو ۔ جس سے یہ ظن غالب ہو کہ اس آبادی ومحلہ کے لوگوں نے اس کو قتل کیا ہے جیسے اس آبادی یا محلہ میں لاش کا پایا جانا ، تو مقتول کے وارثوں سے قسم لی جائے یعنی ان سے کہا جائے کہ وہ یہ قسم کھائیں کہ " اللہ کی قسم ! تم نے (یعنی اس آبادی یا محلہ کے لوگوں نے ) اس کو قتل کیا ہے " اگر مقتول کے وارث یہ قسم کھانے سے انکار کر دیں تو پھر ان لوگوں سے قسم لی جائے جن پر قتل کا شبہ کیا گیا ہے " چنانچہ اس باب کی پہلی حدیث جو حضرت رافع سے منقول ہے اسی پر دلالت کرتی ہے ۔
قسامت میں قصاص واجب نہیں ہوتا اگرچہ قتل عمد کا دعوی ہو بلکہ اس میں دیت واجب ہوتی ہے خواہ قتل عمد کا دعوی ہو یاقتل خطاء کا ۔ لیکن حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر قتل عمد کا دعوی ہو تو پھر قصاص کا حکم نافذ کرنا چاہئے اور حضرت امام شافعی کا قدیم قول بھی یہی ہے،
قسامت کے بارے میں ملحوظ رہنا چاہئے کہ قسامت کا یہ طریقہ زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو باقی رکھا اور اسی کے مطابق انصاریوں میں اس مقتول کا فیصلہ کیا جس کے قتل کا انہوں نے خیبر کے یہودیوں پر دعوی کیا تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں