زخم خوردہ آنکھ کی دیت
راوی:
02 – [ 17 ] ( لم تتم دراسته )
وعنه عن أبيه عن جده قال : قضى رسول الله صلى الله عليه و سلم في العين القائمة السادة لمكانها بثلث الدية . رواه أبو داود والنسائي
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم نے ایسی آنکھ کے بارے میں کہ جو زخمی ہونے کے بعد اپنی جگہ باقی رہے لیکن روشنی محروم ہو جائے یہ حکم فرمایا کہ اس کی دیت (پوری دیت کا ثلث ) (تہائی) ہے مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی آنکھ کو زخم پہنچایا گیا اور اس کی وجہ سے روشنی جاتی رہی مگر آنکھ اپنی جگہ سے باہر نہیں آئی اور اس کے چہرہ موزونیت وجمال میں کوئی خلل نہیں پڑا تو زخم پہنچانے والے پر تہائی دیت واجب ہوگی اور یہ پہلے گزر چکا ہے کہ دونوں آنکھ کے تلف ہو جانے کی صورت میں پوری دیت ( کہ جس کی مقدار سو اونٹ ہے ) واجب ہوگی اور اگر ایک آنکھ تلف ہوگی تو نصف دیت واجب ہوگی ۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں زخم خوردہ آنکھ کی دیت تہائی ہے اور بعض علماء کا مسلک بھی یہی ہے لیکن بعض علماء اس صورت میں عدل کی " حکومت ' ' کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ زخم پہنچانے کی یہ وہ صورت ہے جس میں منفعت بالکلیہ زائل نہیں ہوئی لہٰذا اس کی دیت بھی اس شخص کی ہونی چاہئے جس کو مارا گیا ہو اور اس مار کی وجہ سے (نہ تو اس کا کوئی عضو تلف ہوا ہو اور نہ کوئی زخم پہنچا ہو) بلکہ اس کے بدن کا رنگ سیاہ ہو گیا ہو۔
" حکومت " دیت کے بارے میں ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ فرض کیجئے جو شخص زخمی ہوا ہے اگر وہ غلام ہوتا تو اس زخم کی وجہ سے اس کی قیمت میں سے کسی قدر کمی واقع ہو جاتی پس اسی قدر اس شخص کی دیت زخمی کرنے والے پر واجب ہوگی لہٰذا بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث " حکومت " پر محمول ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تہائی دیت کا جو حکم فرمایا ہے وہ بطریق حکومت ہے نہ بطریق قاعدہ کلیہ ۔
تورپشتی نے اس حدیث کے سلسلہ میں جو بحث کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس حدیث کی صحت میں کلام ہے ۔