مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ دیت کا بیان ۔ حدیث 661

دیت مقتول کے ورثاء کا حق ہے

راوی:

وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقوم دية الخطأ على أهل القرى أربعمائة دينار أو عدلها من الورق ويقومها على أثمان الإبل فإذا غلت رفع في قيمتها وإذا هاجت رخص نقص من قيمتها وبلغت على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم ما بين أربعمائة دينار إلى ثمانمائة دينار وعدلها من الورق ثمانية آلاف درهم قال : وقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم على أهل البقر مائتي بقرة وعلى أهل الشاء ألفي شاة وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن العقل ميراث بين ورثة القتيل " وقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن عقل المرأة بين عصبتها ولا يرث القاتل شيئا . رواه أبو داود والنسائي

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بستیوں والوں پر قتل خطاء کی دیت چار سو دینار یا اس کے مساوی قیمت (یعنی چاندی کے چار ہزار درہم ) مقرر فرماتے اور یہ مقدار اونٹوں کی قیمت کے مطابق ہوتی تھی ۔چنانچہ جب اونٹوں کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیت کی مقدار میں بھی اضافہ کرتے تھے اور جب اونٹوں کی قیمت میں کمی واقع ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیت کی مقدار میں کمی کر دیتے تھے ، یہی وجہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیت کی مقدار چار سو دینار سے آٹھ سو دینار یا اس کی مساوی قیمت (چاندی کے آٹھ ہزار درہم ) تک رہی ۔ راوی کہتے ہیں کہ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے والوں پر دو سو گائیں اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں (بطور دیت ) مقرر فرمائی تھیں ۔ نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیت کا مال مقتول کے ورثاء کا حق ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے اور قاتل (نے اگر اپنے مورث ہی کو قتل کیا ہے تو وہ ) مورث کی وراثت سے محروم رہے گا (نہ اسے مقتول کی دیت میں سے کوئی حصہ ملے گا اور نہ وہ اس کے ترکے میں سے کسی چیز کا حقدار ہوگا ) ۔" (ابو داؤد، نسائی )

تشریح :
طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بھی اب اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دیت کی بنیاد اونٹ پر ہے یعنی دیت اصل میں تو اونٹ ہی کی صورت میں اور اس کی مذکورہ تعداد میں واجب ہوگی جیسا کہ قول جدید کے مطابق امام شافعی کا مسلک ہے ۔
" عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جنایت کی مرتکب ہوئی اور اس نے کسی کو مارا تو اس کی دیت اس کے عصبات یعنی اس کے مددگار اور خاندان والوں پر ہو گئی جیسا کہ مرد کے بارے میں حکم ہے گویا یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اس بارے میں عورت غلام کے مانند نہیں ہوگی کہ جس طرح غلام کی دیت خود اس پر واجب ہوتی ہے اس کے عصبات پر واجب نہیں ہوتی ۔ اس طرح عورت کی دیت خود اس پر واجب نہیں ہوگی بلکہ اس کے عصبات پر واجب ہوگی ۔

یہ حدیث شیئر کریں