سود خوروں کمی حقیق عزت حاصل نہیں ہوتی
راوی:
ایک دنیادار انسان مال ودولت کے انبار اسی لئے جمع کرتا ہے کہ اسے دنیا کا اطمیان سکون اور راحت حاصل ہو اور وہ سماج ومعاشرہ میں عزت ووقار کی زندگی بسر کر سکے لیکن سود خوروں کی راحت کا حال تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں ظاہری طور پر مال ودولت کی فراوانی اور عیش وعشرت اور راحت وآرام کے تمام تر اسباب کی موجودگی کے باوجود ان بدنصیبوں کو حقیقی راحت واطمینان کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور سکون قلب ودماغ جیسی اعلی نعمت میں مسلسل مبتلا رہنے کی وجہ سے طبعی طور پر بھی بے رحم اور سنگ دل بن جاتا ہے اور اس کا پیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ مصیبت زدہ اور افلاس کے مارے لوگوں کی مصیبت ومفلسی سے اور کم مایہ انسانوں کی کم مائیگی سے فائدہ اٹھائے اور ان کا خون چوس کر اپنے بدن کو سیم وزر سے پا لے اس مقصد کے لئے وہ بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کے ہاتھ سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا چھیننے اور افلاس زدہ کی ستائی ہوئی باحیا عورت کے جسم پر لپٹے ہوئے کپڑے کا آخری چیتھڑا اتار لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا اس شقاوت اور سنگ دلی کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں سود خور کی عزت اور وقار کے لئے کوئی گوشہ ہو آپ اپنی آبادی کے کسی بھی بڑے سے بڑے سود خور پر نظر ڈالئے اس کی تجوریاں سونے چاندی اور روپیوں کے کتنے ہی بڑے ذخیروں سے بھری پڑی ہوں اس کے گھر میں مال ودولت کے کتنے ہی خزانے محفوظ ہوں لیکن کیا لوگوں کی نظروں میں اس کی ادنی بھی وقعت ہوتی ہے بے کس ومجبور لوگ بھلے ہی اپنی ضرورت واحتیاج کی بناء پر اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں مگر ان کے دلوں میں بھی اس کے لئے عزت واحترام کا کوئی ادنی سا جذبہ نہیں ہوتا معاشرہ میں اس کی حیثیت اس درندے کے برابر نہیں ہوتی جو اپنے پنجوں سے انسانوں کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے نوچ کر انہیں ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کر دیتا ہے اس کا تنیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے ہر طبقہ میں اس انسانی شرف واحترام سے بھی محروم رہتا ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے سامنے عزت ووقار کا پیکر بنا کر پیش کرتا ہے۔