مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 637

باپ بیٹے ایک دوسرے کے جرم میں قابل مواخذہ نہیں

راوی:

وعن أبي رمثة قال : أتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم مع أبي فقال : " من هذا الذي معك ؟ " قال : ابني اشهد به قال : " أما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه " . رواه أبو داود والنسائي وزاد في " شرح السنة " في أوله قال : دخلت مع أبي على رسول الله صلى الله عليه و سلم فرأى أبي الذي بظهر رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : دعني أعالج الذي بظهرك فإني طبيب . فقال : " أنت رفيق والله الطبيب "

اور حضرت ابورمثہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ والد نے کہا کہ " یہ میرا بیٹا ہے ، آپ گواہ رہیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نہ تو یہ تمہیں اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرے گا اور نہ تم اس کو اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرو گے ۔ (ابو داؤد ، نسائی ) اور صاحب مصابیح نے شرح السنۃ میں اس روایت کے شروع میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ " ابورمثہ نے کہا کہ جب میں نے اپنے والد کے ہمراہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر مہر نبوت دیکھی تو وہ اس کی حقیقت نہ سمجھ سکے اور کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ آپ کی پشت پر جو چیز ہے میں اس کا علاج کروں کیونکہ میں طبیب ہوں ، رسول کریم نے فرمایا " تم (تو بس ) رفیق ہو، طبیب (تو ) اللہ ہے " ۔

تشریح :
آپ گواہ رہئے " کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بات کے گواہ رہئے کہ یہ میرا صلبی بیٹا ہے " اور اس گواہ بنانے سے مقصود یہ تھا کہ اگر مجھ سے کوئی جرم جیسے قتل وغیرہ سرزد ہو جائے " تو میرے اس بیٹے سے مواخذہ کیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ باپ بیٹے ایک دوسرے کے جرم میں قابل مواخذہ ہوتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد نہ تمہیں یہ اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرے گا الخ کے ذریعہ ابورمثہ کے والد پر یہ واضح کر دیا کہ اگر تمہارے بیٹے نے کوئی جرم کیا تو اس کی وجہ سے تمہیں نہیں پکڑا جائے گا اور نہ اس گناہ کی وجہ سے آخرت میں تم سے پر ستش ہوگی ، اسی طرح اگر تم سے کوئی جرم و گناہ سرزد ہو جائے تو دنیا وآخرت میں تمہارے بیٹے سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا ، یہ صرف زمانہ جاہلیت کا رواج ہے کہ باپ بیٹے ایک دوسرے کے گناہ کی وجہ سے پکڑے جاتے تھے ، یہ ایک منصفانہ طرز عمل تھا جو اب ختم کر دیا گیا ہے ۔
کیونکہ میں طبیب ہوں " اس جملہ کے ذریعہ ابورمثہ کے والد نے گویا طب ودانائی کا دعوی کیا ، ان کی یہ بات جس سے ان کی ناسمجھی اور بے ادبی مترشح تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند ہوئی ، چنانچہ آپ نے ان سے فرمایا کہ تم تو بس رفیق ہو، بایں معنی کہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ جب تم کسی مریض کو دیکھو تو اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر کوئی نسخہ اور دوا تجویز کر دو اس کے علاج کے دوران اس کے ساتھ نرمی ومہربانی کی خو اختیار کرو اور جو چیز بظاہر اس کے لئے نقصان دہ ہوتی ہو اس سے اس کو دور رکھنے کی کوشش کرو اس کے علاوہ اور تمہارے بس میں کیا ہے ؟ کیا شفا تمہارے ہاتھ میں ہے ؟ کیا مرض کی حقیقت تک تمہارے علم وفن کی رسائی ہو جاتی ہے ؟ ہرگز نہیں طبیب تو اللہ ہے کیونکہ مرض کی حقیقت بھی وہی جانتا ہے اور دوا کی حقیقت بھی اسی کے علم میں ہے اور شفا بھی صرف اسی ذات پاک کے ہاتھ میں ہے ۔ جو بقا کے ساتھ موصوف ہے ، اس ذات پاک کے علاوہ کوئی بڑی سے بڑی طاقت شفا نہیں دے سکتی ۔

یہ حدیث شیئر کریں