باپ سے اولاد کا قصاص نہ لیا جائے ۔
راوی:
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تقام الحدود في المساجد ولا يقاد بالولد الوالد " . رواه الترمذي والدارمي
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مسجدوں میں حدود جاری نہ کی جائیں اور نہ اولاد کے (قتل کے) بدلے میں باپ کو قتل کیا جائے (بلکہ باپ سے دیت (یعنی مالی معاوضہ لیا جائے )۔" ترمذی ، دارمی)
تشریح :
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ زنا ، چوری ، یا اسی قسم کے دوسرے جرائم حدود (یعنی ان کی شرعی سزائیں ) مساجد میں جاری نہ کی جائیں ، اسی طرح قصاص بھی اسی حکم میں داخل ہے کہ کسی قاتل کو بطور قصاص مسجد میں قتل نہ کیا جائے کیونکہ مسجدیں فرض نماز پڑھنے کے لئے ہیں یا فرض نماز کے توابع کے لئے ہیں جیسے نفل نمازیں یا ذکر وشغل اور دینی علوم کا پڑھنا پڑھانا ۔
حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ اگر باپ اپنی اولاد کو قتل کر دے تو اس کو مقتول اولاد کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے اس بارے میں فقہی تفصیل یہ ہے کہ اگر بیٹا اپنے ماں باپ کو قتل کر دے تو اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ بیٹے کو بطور قصاص قتل کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اگر ماں باپ ، بیٹے کو مار ڈالے تو اس میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ، امام ابوحنیفہ امام شافعی اور امام احمد تو یہ فرماتے ہیں کہ باپ کو بطور قصاص قتل نہ کیا جائے ، امام مالک کا قول یہ ہے کہ اگر باپ نے بیٹے کو ذبح کر کے مار ڈالا ہے تو اس صورت میں باپ کو بطور قصاص قتل کیا جا سکتا ہے اور اگر اس نے بیٹے کو تلوار سے ختم کیا ہے تو پھر اس سے قصاص نہ لیا جائے !یہ ملحوظ رہے کہ اس بارے میں ماں کا حکم بھی وہی ہے جو باپ کا ہے ، نیز دادا دادی ، اور نانی بھی ماں اور باپ کے حکم میں ہیں ۔