عورت کے مرد قاتل کو قتل کیا جا سکتا ہے ۔
راوی:
وعن أنس : أن يهوديا رض رأس جارية بين حجرين فقيل لها : من فعل بك هذا ؟ أفلان ؟ حتى سمي اليهودي فأومأت برأسها فجيء باليهودي فاعترف فأمر به رسول الله صلى الله عليه و سلم فرض رأسه بالحجارة
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل ڈالا (یعنی ایک پتھر پر اس کا سر رکھ کر دوسرے پتھر سے اس پر ضرب ماری ) چنانچہ (جب لڑکی کا نزاعی بیان لیا گیا تو ) اس سے پوچھا گیا کہ تمہارے ساتھ کس نے یہ معاملہ کیا ہے ، کیا فلاں شخص نے ؟ کیا فلاں شخص نے ؟ (یعنی جن جن لوگوں پر شبہ تھا ان کا نام لیا گیا یہاں تک کہ جب اس یہودی کا نام لیا گیا تو لڑکی نے اپنے سر کے اشارے سے بتایا کہ ہاں اس نے ایسا کیا ہے ۔ پھر اس یہودی کو حاضر کیا گیا اور اس نے اپنے جرم کا اقرار کیا ، لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح اس یہودی کا سر کچلنے کا حکم فرمایا اور اس کا سر پتھروں سے کچلا گیا ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
بظاہر یہ مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس یہودی نے لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا تھا اسی طرح اس یہودی کا بھی دو پتھروں کے درمیان کچلا گیا ہو ، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کر دے تو مقتول مرد کے بدلے میں اس عورت کو قتل کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح مقتول عورت کے بدلے میں اس کے مرد قاتل کو بھی قتل کی جا سکتا ہے ۔چنانچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے ، نیز یہ حدیث اس امر پر بھی دلالت ہے کہ ایسے بھاری پتھر سے کسی کو ہلاک کر دینا جس کی ضرب سے عام طور پر ہلاکت واقع ہو جاتی ہو ، قصاص کا بموجب ہے ۔چنانچہ اکثر علماء اور تینوں ائمہ کا یہی قول ہے لیکن امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پتھر کی ضرب سے ہلاکت واقع ہو جائے تو اس کی وجہ سے قصاص لازم نہیں ہوتا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک اس یہودی سے قصاص لینے کا سوال ہے تو اس کا تعلق سیاسی اور وقتی مصالحی سے تھا ۔