خود کشی کے بارے میں ایک سبق آموز واقعہ
راوی:
وعن جابر : أن الطفيل بن عمرو الدوسي لما هاجر النبي صلى الله عليه و سلم إلى المدينة هاجر إليه وهاجر معه رجل من قومه فمرض فجزع فأخذ مشاقص له فقطع بها براجمه فشخبت يداه حتى مات فرآه الطفيل بن عمرو في منامه وهيئته حسنة ورآه مغطيا يديه فقال له : ما صنع بكل ربك ؟ فقال : غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه و سلم فقال : ما لي أراك مغطيا يديك ؟ قال : قيل لي : لن تصلح منك ما أفسدت فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اللهم وليديه فاغفر " . رواه مسلم
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو طفیل ابن عمرو دوسی بھی ہجرت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے ان کے ساتھ ان کے قبیلے کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی (اتفاق سے ) وہ شخص مدینہ میں بیمار ہو گیا اور (جب مرض نے شدت اختیار کی ) اس سے صبر نہ ہو سکا ، چنانچہ اس نے تیر کی پیکان لے کر اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے ، اس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھوں سے اتنا خون جاری ہوا کہ وہ مر گیا (اس کے انتقال کے بعد ایک دن ) طفیل بن عمرو نے اس شخص نے اس سے پوچھا کہ " تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس شخص نے کہا ' ' اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وجہ سے بخش دیا ہے کہ میں نے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی " پھر طفیل نے کہا کہ " میں تمہیں اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے دیکھ رہا ہوں اس شخص نے (بڑی حسرت کے ساتھ ) کہا کہ (پروردگار کی طرف سے ) مجھ سے کہا گیا ہے کہ جس چیز کو تم نے خود خراب کیا ہے ہم اس کو درست نہیں کریں گے " جب طفیل نے یہ خواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اے اللہ ! اس کو اور اس کے دونوں ہاتھوں کو بخش دے ۔" (مسلم )
تشریح :
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے وطن سے ہجرت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جانے کی یہ برکت تھی کہ مہاجر کو حق تعالیٰ کی مغفرت ورحمت ہوتی ہے اور اگر مہاجر کسی گناہ میں مبتلا ہو جاتا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کی وجہ سے اس کی بخشش ہو جاتی تھی ۔صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں آپ کی جسمانی زیارت کے مانند ہے لہٰذا آپ کی حیات مبارک میں آپ کی زیارت کرنے والوں کو حق تعالیٰ کی رحمت ومغفرت کی جو برکت ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کے زیارت کرنے والے کو بھی اسی نعمت عظمی کی امید رکھنی چاہئے ۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ تو کفر کا باعث ہے اور نہ دوزخ کے دائمی عذاب کا موجب ہے ، چنانچہ اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اپنے کئے کی سزا پالینے کے بعد جنت میں داخل کر دیا جائے گا ۔