خون مسلم کی حرمت
راوی:
عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث : النفس بالنفس والثيب الزاني والمارق لدينه التارك للجماعة "
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا مسلم انسان کہ جو اس امر کی شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشک میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ، اس کا خون بہاناجائز نہیں الاّ یہ کہ ان تین باتوں میں کوئی ایک بات پیش آجائے (١) ناحق قتل کرنا کہ خون کے بدلے میں خون (یعنی قصاص ) لیا جائے (لیکن یہ مقتول کے ولی کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں شریعت کے مقرر کردہ اصول کے مطابق قاتل سے بدلہ لے) ۔ ( ٢) شادی شدہ (مسلمان ، مکلف اور آزاد ) کا زنا کرنا (اس کو سنگ سار کو کیا جائے (٣) اپنے دین سے نکلنے اور اپنی جماعت کو چھوڑنے والا (یعنی مسلمان مرتد ہو جائے اس کو قتل کرنا جائز ہے ) (بخاری ومسلم )
تشریح :
یہ جملہ جو اس امر کی شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شک میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں " دراصل لفظ مسلم کی وضاحت وبیان اور اس کے موکد کرنے کے لئے ارشاد فرمایا گیا ہے ، نیز اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ محض کلمہ شہادت پڑھ لینا خون بہانے کے ناجائز ہونے کے لئے کافی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص (جو پہلے سے مسلمان نہ ہو یا جس کا مسلمان ہونا معلوم نہ ہو) محض زبان سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور آنحضرت کی رسالت کی شہادت دے دے تو اس شخص کا ناحق خون بہانا بھی اسی طرح ناجائز ہوگا جس طرح کسی دوسرے جانے پہنچانے مسلمان کا ۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان کا خون بہانا قطعا جائز نہیں ہے الاّ یہ کہ ان تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز پیش آ جائے اول تو یہ کہ اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو ناحق قتل کر دے تو " خون کا بدلہ خون " کے اصول کے تحت اس کو قتل کیا جا سکتا ہے ، دوم یہ کہ اگر کوئی شادی شدہ شخص جو مکلف ، مسلمان اور آزاد ہو، زنا کا مرتکب ہو تو اس کو سنگسار کر دیا جائے اور سوم یہ کہ جو مسلمان دین سے نکل آئے یعنی مرتد ہو جائے اس کو قتل کر دینا بھی جائز ہے ۔
" اپنی جماعت چھوڑنے والا " یہ مارق کی صفت مؤ کدہ ہے یعنی جو شخص قولًا یا فعلًا اور یا اعتقادًا مرتد ہو جائے کہ وہ اسلام کو ترک کر دیتا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کی قوم سے علیحدگی اختیار کرے تو اس شخص کو قتل کر دینا واجب ہے بشرطیکہ وہ اپنے ارتداد سے توبہ نہ کر لے ۔ حدیث میں ایسے شخص (یعنی مرتد کو ) " مسلمان " کے ۔ ذلیل میں ذکر کرنا اس اس کی پہلی حالت کے اعتبار سے مجازًا ہے ۔ یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو حنفیہ کے مسلک کے مطابق اس عورت کو قتل نہ کرنا چاہئے ۔