مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 611

تہائی مال سے زیادہ صدقہ کرنے کی ممانعت

راوی:

وعن أبي لبابة : أنه قال للنبي صلى الله عليه و سلم : إن من توبتي أن أهجر دار قومي التي أصبت فيها الذنب وأن أنخلع من مالي كله صدقة قال : " يجزئ عنك الثلث " . رواه رزين

اور حضرت ابولبابہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ " میری تمام و کمال توبہ یہ ہے کہ میں اپنی قوم کا گھر چھوڑ دوں جہاں مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے اور یہ کہ میں اپنے تمام مال کو خیرات کرنے کے لئے اس سے دست کش ہو جاؤں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تہائی مال کا صدقہ تمہارے لئے کافی ہے " ۔ ( رزین )

تشریح :
حضرت ابولبابہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک بہت بڑا عجیب ، سبق آموز اور عدیم المثال واقعہ ہے ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا جو یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا ۔ تو بنو قریظہ نے یہ پیغام بھیجا کہ آپ اپنے صحابی ابولبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیجئے تاکہ ہم اپنے بارے میں ان سے مشورہ کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام کو منظور فرما لیا اور ابولبابہ کو ان کے پاس بھیج دیا ، جب بنو قریظہ نے ابولبابہ کو دیکھا تو ان کے مرد و عورت اور بچے بوڑھے سب ہی ان کے آگے رونے اور گڑ گڑانے لگے ان کی اس کیفیت کو دیکھ کر ابولبابہ کا دل پسیج گیا ، پھر انہوں نے ابولبابہ سے پوچھا کہ اگر ہم حکم محمدی کو مان لیں اور اپنے آپ کو ان کے حوالہ کریں تو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ اس کے جواب میں ابولبابہ نے اپنے حلق پر ہاتھ پھیر کر ظاہر کیا کہ تمہیں ذبح کر ڈالیں گے ۔ ابولبابہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات کہی اور ہنوز وہاں سے قدم نہیں اٹھایا تھا کہ میں متنبہ ہوا اور اس بات پر سخت نادم ہوا کہ تو نے اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں خیانت کی ۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ۔
(يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْ ا اَمٰنٰتِكُمْ) 8۔ الانفال : 27)
" اے ایمان والو ! نہ تو اللہ اور رسول کی امانت ( یعنی ان کے پیغام و احکام ) میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ "
پھر کیا تھا ، ایسا لگا جیسے احساس ندامت و شرمندگی نے ابولبابہ کے قلب و شعور پر بجلی گرا دی ہو ، وہ بے تاب ہو گئے اور دیوانہ وار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا اور یہ اعلان کیا کہ جب تک میں توبہ نہ کر لوں اور پھر جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہ کر لے مجھ پر کھانا پینا حرام ہے ! جب نماز کا وقت آتا تو ان کے بیٹے آتے اور ان کو کھول دیتے پھر جب وہ نماز پڑھ لیتے ان کے ہاتھ باندھ دیتے لوگ ان کے پاس آتے تو کھولنے کے لئے کہتے تو انکار کر دیتے اور فرماتے کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود آ کر نہ کھولیں گے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا ، چنانچہ مسلسل سات دن تک اسی طرح اس ستون سے بندھے کھڑے رہے یہاں تک کہ غش کھا کر گر پڑے ، آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی ، اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے ۔ اب تو اپنے آپ کو کھول ڈالو ، انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے مجھے نہیں کھولیں گے میں خود اپنے آپ کو ہرگز نہیں کھولوں گا ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے انہیں کھولا اسی موقع پر حضرت ابولبابہ نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ اپنی توبہ کو کامل کرنے کے لئے میں یہ محسوس کرتا ہوں مجھے اپنے سارے اثاثہ سے دست کش ہونا چاہئے چنانچہ اول تو میں اپنا وہ آبائی اور قومی گھر چھوڑتا ہوں جو بنی قریظہ کے قبیلہ میں واقع ہے اور دوسرے میں اپنا وہ تمام مال و اسباب اللہ کی راہ میں خیرات کر دینا چاہتا ہوں ۔
گھر چھوڑنے کے لئے ابولبابہ نے اس لئے کہا کہ وہ اس جگہ سے دور ہو جائیں جہاں شیطان نے ان پر غلبہ حاصل کر کے ان کو گناہ میں مبتلا کیا اور اس گناہ کا ظاہری سبب بنو قریظہ کے تئیں ان کا جذبہ ہمدردی تھا اور اس جذبہ ہمدردی کا اظہار انہوں نے اس لئے کیا کہ ان کے اہل و عیال اور مال و اسباب سب کچھ بنو قریظہ کے قبضہ میں تھا ۔ گھر چھوڑنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اس کا حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے ، بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ابولبابہ کا گھر چھوڑ دینا طاعت کی قسم سے تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا ، البتہ صدقہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ سارا مال خیرات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے سارے مال کا تہائی حصہ خیرات کرنا حصول مقصد کے لئے کافی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں