دف بجانے کی نذر کو پورا کرنے کا حکم
راوی:
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنه أن امرأة قالت : يا رسول الله إني نذرت أن أضرب على رأسك بالدف قال : " أوفي بنذرك " . رواه أبو داود وزاد رزين : قالت : ونذرت أن أذبح بمكان كذا وكذا مكان يذبح فيه أهل الجاهلية فقال : " هل كان بذلك المكان وثن من أوثان الجاهلية يعبد ؟ " قالت : لا قال : " هل كان فيه عيد من أعيادهم ؟ " قالت : لا قال : " أوفي بنذرك "
اور حضرت ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے ( حضرت عبداللہ ابن عمر ) سے رویت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے نذر مانی ہے کہ ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس تشریف لائیں تو ) تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو " ۔ ( ابوداؤد ) اور رزین نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ اس عورت نے ( یہ بھی ) کہا کہ " اور میں نے یہ نذر مانی ہے کہ میں فلاں فلاں مقام پر جہاں زمانہ جاہلیت میں لوگ ذبح کرتے تھے ، جانور ذبح کروں ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ " کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا ؟ " اس عورت نے کہا کہ نہیں ۔ " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ " کیا وہاں کفار کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا ؟ عورت نے کہا کہ " نہیں !" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اپنی نذر پوری کرو۔ "
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دف بجانا مباح ہے ! جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صرف اس چیز کی نذر ماننی چاہئے جو اطاعت ( یعنی بھلائی ) کی قسم سے ہو وہ اس حدیث کے بارے میں یہ وضاحت کرتے ہیں کہ اگرچہ دف بجانا کوئی اطاعت نہیں ہے بلکہ مباح ہے لیکن اس عورت نے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے جذبات عقیدت و محبت کی بنا پر یہ نذر مانی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جہاد کے معرکوں سے فارغ ہو کر خیر و عافیت کے ساتھ واپس تشریف لائیں گے تو میں دف بجاؤں گی ، لہٰذا اس اعتبار سے اس دف کا بجانا بھی گویا طاعت کی قسم سے ہوا ۔