مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 606

اپنا سارا مال خیرات کر دینے کی ممانعت

راوی:

وعن كعب بن مالك قال : قلت : يا رسول الله إن من توبتي أن أنخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسوله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أمسك بعض مالك فهو خير لك " . قلت : فإني أمسك سهمي الذي بخيبر . وهذا طرف من حديث مطول

اور حضرت کعب ابن مالک کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری مکمل اور پوری طرح توبہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دست کش ہو جاؤں اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کے لئے خیرات کر دوں ۔ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " تمہارے حق میں بہتر یہ ہے کہ تم کچھ مال روک لو ۔ " میں نے عرض کیا " ( اچھا ! ) میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں ۔ ( بخاری ومسلم ) یہ روایت ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے ۔ "

تشریح :
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو تین صحابہ ، حضرت کعب ابن مالک ، حضرت مرارہ ابن ربیع اور حضرت ہلال ابن امیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ گئے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان تینوں صحابہ پر بہت خفاء ہوئے اور لوگوں کو ان تینوں سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیا ، یہ اس صورت حال سے سخت پریشان ہوئے اور اپنی اس کوتاہی اور ندامت و شرمساری کے ساتھ بارگاہ حق جل مجدہ میں دعا وزاری اور توبہ واستغفار کرنے لگے ، چند دنوں کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے حق میں یہ آیت (وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا) 9۔ التوبہ : 118) نازل ہوئی چنانچہ اسی موقع پر حضرت مالک نے جناب رسالت مآب علیہ الصلوۃ والسلام میں عرض کیا کہ میں اس معافی کے شکرانہ کے طور پر اور اپنی توبہ کو کامل کرنے کے لئے یہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس جو کچھ مال ہے سب صدقہ وخیرات کر دوں جس پر انہیں یہ حکم دیا گیا کہ کچھ مال بچا کر رکھ لو ۔ بظاہر اس حکم کا مقصد یہ تھا کہ دو تہائی مال روک کر ایک تہائی مال صدقہ کر دو ۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سارا مال صدقہ کرنے سے اس لئے منع کیا کہ مبادا انہیں اپنی ضروریات زندگی کے لئے کچھ مال کی احتیاج ہو اور اس صورت میں صبر و توکل کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے ، اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معاملات میں ہر شخص کے مرتبہ ومقام کو مد نظر رکھ کر ہی کوئی حکم دیتے تھے ، چنانچہ ایک طرف تو حضرت کعب کا یہ واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا سارا مال صدقہ کرنے سے منع کر دیا ، دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق کی مثال ہے کہ جب انہوں نے اپنا سارا مال و اسباب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈال دیا اور سب کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع نہیں کیا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کی شان بالکل جدا گانہ تھی ، وہ صبر و توکل برضاء مولیٰ کے جس اونچے مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر اس کا ہلکا سا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی بھی مرحلہ پر اپنی اور اپنی کسی بھی سخت سے سخت ضرورت کے موقع پر صبر و توکل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے ۔
کتاب کے مؤلف نے اس حدیث کو اس باب میں شاید اس لئے نقل کیا ہے کہ حضرت کعب کا مذکورہ قول نذر کے مشابہ ہے بایں طور کہ حضرت کعب نے اپنے اوپر ایک ایسے امر کو ( یعنی اپنا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کو ) واجب کیا ۔ جو ایک مخصوص صورت حال ( یعنی قبولیت توبہ ) کی وجہ سے ان پر مطلقاً واجب نہیں تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں