گوشت اور جانور کے باہمی تبادلہ کا مسئلہ
راوی:
وعن سعيد بن المسيب مرسلا : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن بيع اللحم بالحيوان قال سعيد : كان من ميسر أهل الجاهلية . رواه في شرح السنة
حضرت سعید بن مسیب بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے بدلے میں گوشت کا لین دین کرنے سے منع فرمایا ہے نیز حضرت سعد کا بیان ہے کہ جانور کے بدلے میں گوشت کا لین دین زمانہ جاہلیت کے جوئے کی قسم سے تھا ( شرح السنۃ)
تشریح :
زمانہ جاہلیت کے جوئے کی قسم سے مراد یہ ہے کہ جس طرح جوئے کی صورت میں غلط ذرائع سے لوگوں کا مال کھایا جاتا ہے اسی طرح اس میں بھی ایسی ہی صورت پیدا ہو جاتی ہے اگرچہ طریقہ کے اعتبار سے دونوں صورتیں مختلف ہیں کیونکہ اس میں جو کھیلا جاتا ہے اور اس میں لین دین کا ایک معاملہ کیا جاتا ہے۔
حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جانور کے عوض گوشت کے لین دین کا معاملہ حرام ہے خواہ گوشت اس جانور کی جنس کا ہو یا کسی دوسری جنس کے جانور کا ہو نیز چاہے وہ جانور کھایا جاتا ہو چاہے نہ کھایا جاتا ہو جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں یہ معاملہ جائز ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ اس معاملے میں ایک موزوں چیز (یعنی گوشت کہ اس کا لین دین وزن کے ذریعے ہوتا ہے ) کا تبادلہ ایک غیر موزوں چیز یعنی جانور کا اس کا لین دین وزن کے ذریعے نہیں ہوتا کے ساتھ کیا جاتا ہے جس میں دونوں طرف کی چیزوں کا برابر سرابر ہونا ضروری نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ لین دین اور خرید وفروخت کی یہ صورت جائز ہے ہاں اس صورت میں چونکہ لین دین کا دست بدست ہونا ضروری ہے اس لئے حدیث میں مذکورہ بالا ممانعت کا تعلق دراصل گوشت اور جانور کے باہم لین دین کی اس صورت سے ہے جبکہ لین دین دست بدست نہ ہو بلکہ ایک طرف تو نقد ہو اور دوسری طرف وعدہ یعنی ادھار۔