مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 593

اگر قسم کو توڑ دینے ہی میں بھلائی ہو تو اس قسم کو توڑ دینا چاہئے

راوی:

وعن أبي موسى قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني والله إن شاء الله لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير "
(2/276)

3412 – [ 7 ] ( متفق عليه )
وعن عبد الرحمن بن سمرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا عبد الرحمن بن سمرة لا تسأل الإمارة فإنك إن أوتيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أوتيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير " . وفي رواية : " فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك "وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " من حلف على يمين فرأى خيرا منها فليكفر عن يمينه وليفعل " . رواه مسلم
(2/277)

3414 – [ 9 ] ( متفق عليه )
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " والله لأن يلج أحدكم بيمينه في أهله آثم له عند الله نم أن يعطي كفارته التي افترض الله عليه "
(2/277)

اور حضرت ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ کی قسم اگر میں کسی چیز پر قسم کھاؤں اور پھر اس قسم کے خلاف کرنے ہی کو بہتر سمجھوں تو میں اپنی قسم توڑ دوں گا اور اس کا کفارہ ادا کر دوں گا اس طرح اس چیز کو اختیار کروں گا جو بہتر ہو ۔ "
( بخاری ومسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کام کے بارے میں قسم کھاؤں کہ وہ کام نہ کروں گا مگر پھر سمجھوں کہ اس کام کو کرنا ہی بہتر ہے تو میں قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کروں گا اور اس کام کو کر لوں گا ، اس مسئلہ کی مثالیں آگے آنے والی حدیث کی تشریح میں بیان ہونگی ۔

اور حضرت عبد الرحمٰن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک دن مجھ سے ) فرمایا کہ " عبد الرحمٰن ! سرداری کی خواہش نہ کرو ( یعنی اس بات کی طلب نہ کرو کہ مجھے فلاں جگہ کا حاکم و سردار بنا دیا جائے ) کیونکہ اگر تمہاری طلب پر تمہیں سرداری دی جائے گی تو تم اس سرداری کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور اگر بغیر طلب کے کہیں سرداری ملے گی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی ، نیز اگر تم کسی بات پر قسم کھاؤ اور پھر دیکھو کہ اس قسم کا خلاف کرنا ہی اس قسم کو پوری کرنے سے بہتر ہے ، تو تم اس قسم کا کفارہ دے دو اور وہی کام کرو جو بہتر ہے ۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اس چیز کو عمل میں لاؤ جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
" سرداری کی خواہش نہ کرو " کا مطلب یہ ہے کہ سرداری وسیاست کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ ایک بہت ہی دشوار اور سخت ذمہ داری کی چیز ہے اس کے فرائض اور حقوق کی ادائیگی ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ صرف چند ہی لوگ اس کا بار اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا نفس کی حرص میں مبتلا ہو کر سرداری وسیاست کی خواہش نہ کرو کیونکہ اگر تم اپنی طلب پر سرداری وسیاست پاؤ گے تو پھر تمہیں اسی کے سپرد کر دیا جائے گا بایں معنی کہ اس کے فرائض کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر چہار طرف شر وفساد برپا ہوں گے اور تم مخلوق اللہ کی نظروں میں بڑی بے آبروئی کے ساتھ اس منصب کے نا اہل قرار دے دیئے جاؤ گے ، ہاں اگر بلا طلب تمہیں سرداری وسیاست کے مرتبہ سے نوازا جائے گا تو اس صورت میں حق تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے گی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے معاملات انتظام و انصرام درست ہوں گے اور مخلوق اللہ کی نظروں میں تمہاری بہت زیادہ عزت و وقعت ہوگی ۔
" اور وہی کام کرو گے جو بہتر ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی گناہ کی بات پر قسم کھاؤ مثلاً یوں کہو کہ اللہ کی قسم ! میں نماز نہیں پڑھوں گا ۔ یا ۔ اللہ کی قسم میں فلاں شخص کو جان سے مار ڈالوں گا ۔ یا ۔ اللہ کی قسم میں اپنے باپ سے کلام نہیں کروں گا ۔ تو اس صورت میں اس قسم کو توڑ ڈالنا ہی واجب ہوگا اور اس قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا ۔ اور اگر کسی ایسی بات پر قسم کھائی جائے جس کے خلاف کرنا ، اس سے بہتر ہو مثلاً یوں کہا جائے کہ " اللہ کی قسم ! میں اپنی بیوی سے ایک مہینہ تک صحبت نہیں کروں گا " یا اسی طرح کی کسی اور بات پر قسم کھائی جائے تو اس صورت میں اس قسم کو توڑ دینا محض اولیٰ ہوگا ۔ اس بارے میں زیادہ تفصیل ابتداء باب میں گذر چکی ہے ۔
یہاں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت سے تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کر دینا چاہئے ۔ جب کہ دوسری روایت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کفارہ قسم توڑنے کے بعد ادا کرنے چاہئے ، چنانچہ اس مسئلہ پر تینوں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کر دینا جائز ہے لیکن حضرت امام شافعی کے ہاں یہ جواز اس تفصیل کے ساتھ ہے کہ اگر کفارہ کی ادائیگی روزہ کی صورت میں ہو تو قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر کفارہ کی ادائیگی غلام آزاد کرنے ، یا مستحقین کو کھانا کھلانے اور یا کپڑا پہنانے کی صورت میں ہو تو پھر قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کی ادائیگی جائز ہوگی ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کی ادائیگی کسی صورت میں جائز نہیں ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ جن احادیث سے تقدیم کفارہ مفہوم ہوتا ہے ان میں حرف واو محض جمع کے لئے ہے اس سے تقدیم و تاخیر کا مفہوم مراد نہیں ہے اور نہ حقیقتا وہ احادیث تقدیم و تاخیر پر دلالت کرتی ہیں ۔

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھائے اور پھر وہ یہ سمجھے کہ ( اس کے خلاف کرنا ہی ) قسم پوری کرنے سے بہتر ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کفارہ ادا کر دے اور اس کام کو کر لے ( یعنی قسم توڑ دے ) ۔ " ( مسلم )

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی شخص کا اپنی قسم پر اصرار کرنا ( یعنی اس قسم کو پوری کرنے ہی کی ضد کرنا ) جو اپنے اہل و عیال سے متعلق ہو ، اللہ تعالیٰ کے نزیک اس کو زیادہ گناہگار بناتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اس قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر دے جو اس پر فرض کر دیا گیا ہے ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اگر قسم توڑنے میں بظاہر حق تعالیٰ کے نام کی عزت وحرمت کی ہتک ہے اور قسم کھانے والا بھی اس کو اپنے خیال کے مطابق گناہ ہی سمجھتا ہے لیکن اس قسم کو پوری کرنے ہی پر اصرار کرنا جو اہل و عیال کی کسی حق تلفی کا باعث ہوتی ہے زیادہ گناہ کی بات ہے !گویا اس حدیث کا مقصد بھی یہ واضح کرنا ہی کہ قسم کے برخلاف عمل کی بھلائی ظاہر ہونے کی صورت میں قسم کو توڑ دینا اور اس کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں