اسلام کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی قسم کھانے کا مسئلہ
راوی:
وعن ثابت بن الضحاك قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من حلف على ملة غير الإسلام كاذبا فهو كما قال وليس على ابن آدم فيما لا يملك ومن قتل نفسه بشيء في الدنيا عذب به يوم القيامة ومن لعن مؤمنا فهو كقتله ومن قذف مؤمنا بكفر فهو كقتله ومن ادعى دعوى كاذبة ليتكثر بها لم يزده الله إلا قلة "
اور حضرت ثابت ابن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص اسلام کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا کہ اس نے کہا ، اور کسی انسان پر اس چیز کی نذر پوری کرنا واجب نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو اور جس شخص نے ( دنیا میں ) اپنے آپ کو کسی چیز ( مثلاًچھری وغیرہ ) سے ہلاک کر لیا تو وہ قیامت کے دن اسی چیز کے عذاب میں مبتلاء کیا جائے گا (یعنی اگر کسی شخص نے چھری گھونپ کر خود کشی کر لی تو قیامت میں اس کے ہاتھ میں وہی چھری دی جائے گی جس کو وہ اپنے جسم میں گھونپتا رہے گا اور جب تک کہ حق تعالیٰ کی طرف سے نجات کا حکم نہ ہوگا وہ مسلسل اسی عذاب میں مبتلا رہے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان پر لعنت کی تو وہ (اصل گناہ کے اعتبار سے ) ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے اس مسلمان کو قتل کر دیا ہو ، اور اسی طرح جس شخص نے کسی مسلمان پر کفر کی تہمت لگائی تو گویا اس نے اس مسلمان کو قتل کر دیا (کیو نکہ کفر کی تہمت لگانا اسباب قتل سے ہے لہٰذا کفر کی تہمت قتل کر دینے کی مانند ہے ) اور جھوٹا دعوی کرے تا کہ اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مال و دولت میں کمی کر دے گا ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے مثلاً یوں قسم کھائی کہ " اگر میں فلاں کام کروں تو یہودی یا نصرانی ہوں ، یا دین اسلام سے یا پیغمبر اسلام سے اور یا قرآن سے بیزار ہوں ۔ اور پھر اس نے اس کے برخلاف کیا یعنی قسم کو جھوٹی کر دیا ، بایں طور کہ اس نے وہ کام کر لیا جس کے نہ کرنے کی اس نے قسم کھائی تھی تو وہ ایسا ہی یہودی ونصرانی ہو گیا یا دین اسلام یا پیغمبر اسلام یا قرآن سے بیزار ہو گیا کیونکہ قسم دراصل اس کام کو روکنے کے واسطے ہوتی ہے جس کے لئے وہ قسم کھائی گئی ہے ۔ لہٰذا قسم کا سچ ہونا تو یہ ہے کہ قسم کھانے والا وہ کام نہ کرے اور اگر وہ اس کام کو کرے گا تو اپنی قسم میں جھوٹا ہوگا تو لا محالہ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ اس نے کہا ہے ۔
حدیث کے اس ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی قسم کھانے والا محض قسم کھانے کی وجہ سے اس قسم کو توڑنے کے بعد کافر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس طرح کی قسم کھا کر ایک صریح حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس قسم کو جھوٹی کر کے گویا کفر کو برضا ورغبت اختیار کرتا ہے ۔ لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بتانا ہو کہ اس طرح کی قسم کھانے والا واقعۃً یہودی وغیرہ ہو جاتا ہے بلکہ اس کی مراد بطور تہدید و تنبیہ یہ ظاہر کرنا ہو کہ وہ شخص یہودیوں وغیرہ کی مانند عذاب کا مستوجب ہوتا ہے ، چنانچہ اس کی نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ (من ترک الصلوۃ فقد کفر) ( یعنی جس شخص نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہو گیا ) اس ارشاد کا بھی یہی مطلب ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافروں کے عذاب سے مستوجب ہوتا ہے ۔ اب ہی یہ بات کہ اس طرح قسم کھانا اگرچہ حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح قسم کھا ہی لے تو کیا شرعی طور پر اس کو قسم کہیں گے اور کیا اس قسم کو توڑنے کا کفارہ واجب ہوگا یا نہیں ؟ تو اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض علماء کا قول تو یہ ہے کہ یہ قسم ہے اور اگر اس قسم کو توڑا جائے گا تو اس شخص پر کفارہ واجب ہوگا ، ان کو دلیل ہدایہ وغیرہ میں منقول ہے ۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس طرح کہنے پر قسم کا اطلاق نہیں ہوگا یعنی شرعی طور پر اس کو قسم نہیں کہیں گے اور جب یہ قسم ہی نہیں ہے تو اس کو توڑنے پر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا ، ہاں اس طرح کہنے والا سخت گناہگار ہوگا خواہ وہ اپنی بات کو پورا کرے یا توڑ ڈالے ۔
درمختار میں لکھا ہے کہ ( مذکورہ بالا مسئلہ میں ) زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کی قسم کھانے والا ( اس قسم کے برخلاف عمل کرنے کی صورت میں کافر نہیں ہو جاتا خواہ وہ اس طرح کا تعلق گذرے ہوئے زمانہ سے ہو یا آنے والے زمانہ سے ہو بشرطیکہ وہ اس طرح کہنے کے بارے میں قسم ہی کا اعتقاد رکھتا ہو لیکن اگر وہ اس قسم کے ہونے سے لا علم ہو اور اس اعتقاد کے ساتھ یہ الفاظ ادا کرے کہ اس طرح کہنے والا اپنی بات کو جھوٹا ہونے کی صورت میں کافر ہو جاتا ہے تو خواہ وہ اس بات کا تعلق گذرے ہوئے زمانہ سے ہو یا آنے والے زمانہ میں کسی شرط کے پورا ہونے کے ساتھ وہ دونوں ہی صورتوں میں کفر کو خود برضا ورغبت اختیار کرنے کی وجہ سے کافر ہو جائے گا ۔
" اور کسی انسان پر اس چیز کی نذر پوری کرنا واجب نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو " کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی شخص یوں کہے " اگر میرا فلاں عزیز صحت یاب ہو جائے تو میں فلاں غلام آزاد کر دوں گا " جب کہ ہو فلاں غلام درحقیقت اس کی ملکیت میں نہ ہو ، تو اس صورت میں اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے ، اگر اس کے بعد وہ غلام اس کی ملکیت ہی میں کیوں نہ آجائے ہاں اگر اس نے آزادی کو ملکیت کے ساتھ مشروط کر دیا یعنی یوں کہا کہ " اگر میرا فلاں عزیز صحت یاب ہو گیا اور فلاں غلام میری ملکیت میں آگیا یا فلاں غلام کو میں نے خرید لیا تو میں اس کو آزاد کر دوں گا " تو اس صورت میں وہ غلام ملکیت میں آنے کے بعد یا خریداری کے بعد اس نذر کے مطابق آزاد ہو جائے گا ۔
" تاکہ اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو " یہ اکثر کے اعتبار سے دعویٰ کی علت و سبب کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر لوگ محض اپنے مال و دولت میں اضافہ کی خاطر جھوٹے وعدے کر تے ہیں مذکورہ ثمرہ ( یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مال میں کمی کر دیا جانا ) مرتب ہوگا ۔ جھوٹے وعدے کا مذکورہ ثمرہ محض مال و دولت ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہی ثمرہ ان لوگوں کے حق میں بھی مرتب ہوتا ہے جو اپنے احوال و فضائل اور کمالات کے بارے میں محض اس مقصد سے جھوٹا دعویٰ کر تے ہیں کہ عام انسانوں کی نظروں میں ان کا جاہ و مرتبہ زیادہ سے زیادہ بڑھے جیسا کہ نام نہاد اور بناوٹی صوفیوں اور پیروں کا شیوہ ہے ۔