مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے
راوی:
عن عبد الرحمن بن أبي عمرة الأنصاري : أن أمه أرادت أن تعتق فأخرت ذلك إلى أن تصبح فماتت قال عبد الرحمن : فقلت للقاسم بن محمد : أينفعها أن أعتق عنها ؟ فقال القاسم : أتى سعد بن عبادة رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " إن أمي هلكت فهل ينفعها أن أعتق عنها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم " . رواه مالك
(2/274)
3404 – [ 17 ] ( لم تتم دراسته )
وعن يحيى بن سعيد قال : توفي عبد الرحمن بن أبي بكر في نوم نامه فأعتقت عنه عائشة أخته رقابا كثيرة . رواه مالك
حضرت عبد الرحمٰن ابن ابوعمرہ انصاری ( تابعی ) کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی والدہ نے ( ایک دن ) بردے کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا مگر وہ اگلی صبح ہونے تک اس ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکی تھیں ، کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم ابن محمد سے ( اس صورت حال کو ذکر کیا اور ان سے پوچھا کہ اگر میں اپنی والدہ کی طرف سے ( بردہ کو ) آزاد کروں تو کیا اس سے ان کو نفع پہنچے گا ؟ حضرت قاسم نے فرمایا کہ ( ایک مرتبہ ) حضرت سعد ابن عبادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری والدہ کا ( اچانک ) انتقال ہو گیا ہے ، اگر میں ان کی طرف سے بردہ آزاد کروں تو کیا اس سے ان کو نفع پہنچے گا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ہاں نفع " پہنچے گا ۔ " ( مالک )
تشریح :
حضرت قاسم ابن محمد ، حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے تھے ، اس وقت مدینہ میں جو سات فقہاء مشہور تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھے
" ہاں نفع پہنچے گا " کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کی طرف سے جو بردہ آزاد کرو گے اس کا ثواب تمہاری والدہ کو پہنچے گا ، چنانچہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے البتہ بدنی عبادت کے ثواب پہنچنے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں لیکن زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ بدنی عبادت کا ثواب بھی پہنچتا ہے ۔
اور حضرت یحییٰ ابن سعید ( تابعی ) کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن ابن ابوبکر سوئے ہوئے تھے کہ اسی سونے کی حالت میں ( اچانک ) انتقال کر گئے ، چنانچہ حضرت عائشہ جو ان کی بہن تھیں ان کی طرف سے بہت سے بردے آزاد کئے ۔ " ( مالک )
تشریح :
حضرت عائشہ نے جو بہت سے بردے آزاد کئے ان کا سبب یا تو یہ تھا کہ حضرت عبدالرحمن پر کسی وجہ سے بردے آزاد کرنے واجب ہوں گے جس پر وہ اپنی زندگی میں عمل نہ کر سکے اور وہ پھر ناگہانی موت کی وجہ سے اس کی وصیت بھی نہ کر سکے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ نے ازخود ان کی طرف سے بردے آزاد کر دیئے ، یا پھر یہ کہ بعض حالات میں ناگہانی موت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ، ظاہر ہے کہ اس صورت میں حضرت عائشہ بہت زیادہ غمگین ہوئی ہوں گی ، اس لئے انہوں نے بہت سارے بردے آزاد کئے تاکہ اس صورت میں نقصان کا تدارک ہو سکے ۔